منگل, فروری 11, 2025
اشتہار

سلویا پلاتھ: موت کے بعد بے مثال شہرت پانے والی شاعرہ اور ناول نگار

اشتہار

حیرت انگیز

سلویا پلاتھ کی وجہِ شہرت اور شاعری میں انفرادیت یہ ہے کہ اس نے اپنی نظموں میں گویا اپنی ذات اور اپنے احساسات کا غیرمعمولی شدت سے اظہار کیا۔ جب کہ اس دور میں ہم عصر شعرا‌ کے ہاں ایسی کیفیت اور اظہار دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سلویا پلاتھ شاعرہ ہی نہیں بطور ناول نگار بھی مشہور ہوئی۔ اور اس کے سوانحی ناول کو بہت سراہا گیا۔ شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ نے صرف 31 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اس کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ اسے پولیس نے حادثہ قرار دیا تھا۔

سلویا پلاتھ اوائلِ عمری میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی جس کے کئی اسباب سامنے آئے۔ وہ شروع ہی سے حساس طبع تھی اور والد کی موت نے اسے شدید ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ سلویا پلاتھ نے ڈپریشن کا علاج بھی کروایا۔ لیکن فائدہ نہیں‌ ہوا۔ اس نے نوجوانی میں تین مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش کی۔ ماہرِ نفسیات اسے ذہنی دباؤ سے آزاد نہیں کرواسکے اور پھر سلویا کی خود کشی کی چوتھی کوشش کام یاب ہوگئی۔ اس نے اوون میں اپنا منہ رکھ کر تکلیف دہ طریقے سے زندگی ختم کی۔ 11 فروری 1963ء کو سلویا پلاتھ اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ کچھ لوگوں نے اسے قتل کی واردات کہا، کیوں کہ وہ جس کمرے میں مردہ پائی گئی تھی، اس کا دروازہ مقفل تھا اور عام طور پر وہ اپنا کمرہ لاک نہیں کرتی تھی۔

موت کے بعد اسے بے حد شہرت نصیب ہوئی اور اس کی شاعری کو ادبِ عالیہ تسلیم کیا گیا۔ 27 اکتوبر 1932ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ شاعرہ سلویا پلاتھ جب آٹھ برس کی تھی تو اس کے والد فوت ہو گئے تھے۔ سلویا پر ان کی موت کا گہرا نفسیاتی اثر ہوا اور وہ بہت دکھی رہی اور یہ دکھ ڈپریشن کا روپ دھارنے لگا تھا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکی تھی اور 18 سال کی عمر میں اس کی پہلی نظم ایک مقامی اخبار میں شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ سلویا نے ایک نیم سوانحی ناول دی بیل جار لکھا جو بہت مقبول ہوا۔

1955 میں سلویا پلاتھ نے دوستوفسکی کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر اسمتھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ذہین اور قابل لڑکی تھی اور اسی ذہانت کی وجہ سے انگلستان کا فل برائٹ اسکالر شپ حاصل کرکے انگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی۔ اس کی ملاقات اپنے وقت کے مشہور شاعر ٹیڈ ہیوز سے 1956 میں ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو گئے، چند ماہ بعد انھوں نے شادی کرلی لیکن جلد ہی رومانس دم توڑ گیا اور سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے کا شکار ہوکر بکھر گئی۔ اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، مگر ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا، اور پھر حساس طبع سلویا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلویا پلاتھ کے مشہور ناول کے چند ابواب دراصل اس کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔

سلویا پلاتھ کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا اور الم ناک موت کے بعد اس کی دیگر نظمیں‌ کتابی شکل میں‌ شایع ہوئیں۔ اس کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ اس کے لیے پلٹزر پرائز کا اعلان کیا گیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں