پیر, مئی 20, 2024
اشتہار

کیا یہی ورلڈ کپ جیتنے کی تیاری ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان کرکٹ ٹیم جس کو دنیائے کرکٹ میں شاہینوں کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپنے کئی شکار ہاتھ سے جانے کے بعد آئرلینڈ اور انگلینڈ کو شکار کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں بابر اعظم کی قیادت میں آئرلینڈ کی سر زمین پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں وہ تین میچوں کی سیریز کے بعد انگلینڈ کا رخ کرے گی۔ برطانیہ میں 4 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے بعد پھر شاہینز امریکا اور ویسٹ انڈیز کی طرف اڑان بھریں گے، جہاں وہ 20 ممالک کی ٹیموں سے سجے آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کریں گے۔

ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کا آغاز سر پر آن پہنچا ہے اور صرف تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ یکم جون سے ویسٹ انڈیز کے ساتھ پہلی بار کرکٹ کے آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والے ملک امریکا میں اس میگا ایونٹ کا آغاز ہوگا۔ ٹورنامنٹ میں پہلی بار ریکارڈ 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ ان میں سے دفاعی چیمپئن انگلینڈ سمیت بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، افغانستان سمیت 15 ممالک اپنے اسکواڈز کا اعلان کر چکے ہیں، مگر پاکستان کا ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان تو دور کی بات، ابھی تک یہ ہی طے نہیں ہوسکا ہے کہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کون سے کھلاڑی جائیں گے اور کون گھر میں ٹی وی اسکرینز پر یہ میچز دیکھیں گے۔

کھیل کوئی بھی ہو، ورلڈ کپ سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں شرکت کا خواب ہر کھلاڑی دیکھتا ہے، ٹورنامنٹ کو جیتنے اور ٹرافی اٹھانے کی خواہش ہر ٹیم میں ہوتی ہے، جس کے لیے وہ سالوں پہلے سے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا ہے۔ ہر میگا ایونٹ میں ناکامی کے بعد ہمارے کھیلوں کے کرتا دھرتا، اس کو اپنے لیے ایک سبق قرار دیتے ہوئے اگلے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے عزم کا اظہار کرتے ہیں اور جب چار سال گزرتے ہیں تو قوم کھیلوں کے اداروں اور ٹیموں کو وہیں کھڑا دیکھتی ہے جہاں وہ چار سال قبل کھڑی ہوتی ہیں اور منیر نیازی کی مشہور نظم کے اس مصرع کی عملی تفسیر پیش کرتی نظر آتی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘‘۔

- Advertisement -

پاکستان کرکٹ ٹیم جس نے پہلی اور آخری بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا ایڈیشن 2009 میں جیتا تھا۔ اس کے بعد گرین شرٹس 5 بار تو سیمی فائنل میں پہنچے لیکن ٹرافی اٹھانے کی جانب پیش قدمی تو درکنار ٹیم فائنل میں بھی نہ پہنچ سکی۔ گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی قومی ٹیم کا بابر اعظم کی قیادت میں سفر سیمی فائنل پر ہی تمام ہو گیا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ جس پر ملکی سیاست ہمیشہ سے سایہ فگن رہی ہے۔ اسی لیے جس طرح ہماری سیاست اور اس کی پالیسیوں میں استحکام نہیں ہے، اسی کا عکس پی سی بی اور اس کے فیصلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ملک میں جہاں سیاسی ہلچل عروج پر پہنچتی ہے تو پی سی بی حکام کو اپنی کرسیاں خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے، اب ایسے میں وہ کرکٹ کی ترقی پر فوکس کرنے کے بجائے اپنی کرسیاں بچانے کے لیے لابنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کا سراسر نقصان کرکٹ کے کھیل کو ہی ہوتا ہے۔

اس تماشے کو دیکھنے کی عادی قوم گزشتہ ڈیڑھ برس سے پی سی بی کی میوزیکل چیئر بنی کرسی اور اس کے نتیجے میں پاکستان ٹیم کی گرتی کارکردگی کو مسلسل دیکھ رہی ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی کی انتظامی تبدیلی جڑی ہے تو حکومت کے ساتھ یہ تبدیلی بھی ہو کر رہی اور 15 ماہ میں چیئرمین پی سی بی پر چوتھی شخصیت کو تعینات کیا گیا۔ جب ادارے کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو پھر منیجمنٹ اور کپتان بھی اسی کی پسند کا ہوتا ہے اور پاکستان ٹیم کی قیادت عرصہ دراز سے اسی کھینچا تانی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے اور اس خرابی بسیار کھیل میں ہمارے سابق بڑے بڑے لیجنڈ کرکٹرز کے نام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ اسی روایت کے تحت ٹیم میں ایک بار پھر گروپنگ کی خبروں نے زور پکڑا جس کو ممہیز نیوزی لینڈ کی سی ٹیم جو 10 بڑے ناموں سے محروم تھی سے سیریز برابر کرنے پر مزید پھیلی۔

بابر اعظم جنہیں گزشتہ سال بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد قیادت سے ہٹنا پڑا تھا اور ان کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو ٹی 20 کی قیادت سونپی گئی تھی مگر اسٹار فاسٹ بولر کی قائدانہ صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے پی سی بی حکام نے صرف نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی سر زمین پر کھیلی گئی سیریز اور پی ایس ایل 9 میں لاہور قلندرز کی ناکامی کو پیمانہ قرار دیا اور کپتانی کا تاج ایک بار پھر بابر اعظم کے سر پر سجا دیا یہ سوچے بغیر کہ شاہین شاہ مسلسل دو سال تک لاہور قلندرز کو پی ایس ایل چیمپئن بنوا چکے ہیں۔

پاکستان ٹیم ڈھائی سال سے اپنی سر زمین پر کوئی بھی سیریز جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ جب نو آموز نیوزی لینڈ ٹیم آئی تو شائقین کو وائٹ واش کے ساتھ امید تھی کہ گرین شرٹس اپنی سر زمین پر ڈھائی سال بعد کوئی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگی، مگر ہمارے سپر اسٹار کھلاڑیوں سے سجی ٹیم کو کیویز کی سی کلاس ٹیم کے بچوں نے ناکوں چنے چبوا دیے اور گرین شرٹس پہنے نامور کھلاڑیوں کی ڈفر پرفارمنس نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔ پاکستان ٹیم ڈھائی سال میں دو بار نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم سے بھی سیریز نہ جیت سکی۔ انگلش ٹیم شکست کی دھول چٹا کر گئی۔ کینگروز نے بھی شاہینوں کے پر کاٹ دیے۔

نیوزی لینڈ سیریز کو ورلڈ کپ کی تیاریوں کا آغاز کہا جا رہا تھا لیکن جس بری طرح سے یہ آغاز ہوا ہے، آگے کی کہانی واضح نظر آتی ہے۔ بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ میں کئی خامیاں سامنے آئیں۔ پانچ میں سے چار میچز کھیلے گئے اور صرف دو نصف سنچریاں ایک بابر اعظم اور ایک فخر زمان نے بنائیں۔ محمد عامر چار سال بعد اپنی ٹیم میں واپسی کو یادگار نہ بنا سکے اور تین میچز میں صرف تین وکٹیں ہی لے پائے۔ اس کارکردگی کے بعد اب پی سی بی انتظامیہ نے اپنا راگ بدلتے ہوئے آئرلینڈ اور انگلینڈ دوروں کو ورلڈ کپ کی تیاری سے نتھی کر دیا ہے جس پر کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے صرف طنزیہ مسکرا ہی سکتے ہیں کیونکہ میگا ایونٹ سے 10 یا 15 دن قبل کیسی تیاری اور کمبینیشن بنایا جا سکتا ہے۔

سب سے بڑی خامی جو سامنے آئی ہے وہ قومی ٹیم کا کمزور ترین مڈل آرڈر ہے۔ دنیا کی 10 بڑی کرکٹ ٹیموں میں ہمارا مڈل آرڈر نویں نمبر پر اور صرف افغانستان سے اوپر ہے۔ قومی ٹیم کا مڈل آرڈر ٹی 20 کرکٹ میں 7 سے 15 اوورز کے درمیان محض 7.30 رنز سے اسکور کررہا ہے جو آئرلینڈ اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے بھی کم ہے اور صرف افغانستان سے بہتر ہے اور یہ اعداد وشمار لمحہ فکریہ اور پی سی بی حکام کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔

نیوزی لینڈ سے سیریز برابر ہونے کے بعد سلیکشن کمیٹی نے دورہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا جس میں گزشتہ ورلڈ کپ میں اوسط درجے سے بھی کم کارکردگی دکھانے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رہنے کے باوجود سینیئر فاسٹ بولر حسن علی کی واپسی نے ان کی سلیکشن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ ٹیم کی سلیکشن میں ایک بار پھر دوستی یاری کو ترجیح دی گئی ہے جس کا خمیازہ ہم ون ڈے ورلڈ کپ 2023 میں پہلے ہی راؤنڈر میں باہر ہو کر بھگت چکے ہیں۔

پی سی بی سلیکشن کمیٹی نے آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دوروں کے لیے ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ کا اعلان کرنے کے لیے 22 مئی تاریخ دی اور ساتھ ہی یہ لطیفہ بھی سنا ڈالا کہ ’’پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ٹیم کے اعلان میں مشکل پیش آ رہی ہے۔‘‘ اگر اس ٹیلنٹ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے پلڑے میں قومی ٹیم کی حالیہ کچھ ماہ کی کارکردگی رکھی جائے تو حقیقت سب پر عیاں ہو جائے گی۔

اب ٹیم آئرلینڈ پہنچ چکی ہے لیکن گرین شرٹس یاد رکھیں کہ آئرش ٹیم اپ سیٹ کرنے میں ماہر ہے۔ پاکستان کے پاس ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے صرف 7 میچز ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے شاہین اس میں کیا تیر مارتے ہیں۔ ٹیم کی حالت دیکھ کر ہم تو قوم کو یہی مشورہ دیں گے کہ حسب سابق سہانے خواب دیکھے مگر جاگتی آنکھوں کے ساتھ مصلّٰی و تسبیح بھی ساتھ رکھے کہ ٹیم کو اگلے ماہ پھر قوم کی دعاؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ہم تو ہر میگا ایونٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی گاڑی کو دعاؤں سے ہی آگے دھکیلنے کی کوشش کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں