تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

1917ء سے 1964ء تک ٹی۔ ایس ایلیٹ انگریزی ہی نہیں عالمی ادب میں‌ بھی ایک عظیم شاعر اور نقّاد کے طور پر پہچان بنانے میں‌ کام یاب رہا۔ وہ 4 جنوری 1965ء کو 77 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا

انگریزی زبان کا یہ مشہور شاعر اور نقّاد 1888ء میں‌ سینٹ لوئیس، امریکا میں پیدا ہوا۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ 1915ء میں وہ برطانیہ چلا گیا اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

ٹی ایس ایلیٹ نے 1922ء میں ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا جو آٹھ سال بعد ہو گیا۔ اسے 1948ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اگرچہ اس کے افکار اور مضامین پر اسے کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ادب پر اس کی تنقید کے اثرات کم نہیں‌ ہوئے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں شاعری کا پروفیسر مقرر ہو گیا۔ اس وقت تک وہ اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کے سبب مشہور ہوچکا تھا۔ اس نے متعدد منظوم ڈرامے لکھے اور اپنے تنقیدی نظریات کے سبب دنیا بھر میں‌ نام کمایا۔

اس نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں تنقیدی مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے اور جب ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ کے عنوان سے مضمون سامنے آیا تو اس نے کئی مباحث کو جنم دیا۔ اس کی تحریروں میں مذہب اور معاشرے کی تہذیبی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دی گئی ہے۔ ایلیٹ روایت کا دلدادہ تھا۔ اسے رومانوی شاعری سے نفرت تھی۔

معروف ادیب، محقّق اور نقّاد جمیل جالبی نے لکھا کہ ”ایلیٹ سے میری دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ اس نے تنقید میں فکر کو جذب کر کے اسے ایک نئی قوّت دی ہے، اس لیے ان کی تنقید تاثراتی نہیں ہے اور اس کا طرزِ تحریر، تجزیہ و تحلیل حد درجہ سائنٹفک ہے۔ وہ اپنے خوب صورت جمے ہوئے انداز میں ٹھنڈے ٹھنڈے باوقار طریقے سے بات کرتا ہے۔ قدیم شعراء میں سے چند کو خاص دل چسپی کا محور بنا لیتا ہے۔ اور وہ ایسے شعراء ہیں جنھوں نے ماضی سے شدّت کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑا ہے۔“

Comments

- Advertisement -