جنوبی افریقہ دنیائے کرکٹ کی ایک مضبوط ٹیم ہے جو آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 میں گروپ ڈی میں شامل ہے۔
آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا آغاز ہوچکا ہے جس میں شریک 20 ٹیموں میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہے جو دنیائے کرکٹ کی مضبوط ٹیم کہلاتی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے اہم اور فیصلہ کن مواقع پر ہمت ہار جانے کی عادت کے باعث بین الاقوامی کرکٹ میں اسے چوکرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
رواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ گروپ ڈی میں شامل ہے جس میں سری لنکا، بنگلہ دیش، نیدرلینڈ اور نیپال کی ٹیمیں بھی موجود ہے۔ پروٹیز آج (پیر) سری لنکا کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کرے گی۔ میچ نیویارک میں کھیلا جائے گا جو پاکستانی وقت کے مطابق شام ساڑھے سات بجے شروع ہوگا۔
تو بات ہو رہی تھی جنوبی افریقہ پر چوکرز کا لیبل لگنے کی جس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے ٹورنامنٹ میں ہمیشہ اچھی کارکردگی کے باوجود یہ اہم اور فیصل کن میچز میں اچانک ڈھے جاتی ہے۔ ہر ٹورنامنٹ میں مضبوط ٹیم کے طور پر شرکت کرتی ہے لیکن ٹرافی اب تک کوئی نہیں جیت سکی ہے۔
جنوبی افریقہ کی بدقسمتی کا آغاز تو 1992 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہوا جہاں اسے انگلینڈ کے خلاف جیت کے لیے 21 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے اور فتح سامنے نظر آ رہی تھی لیکن اچانک آسمان سے بارش برس پڑی اور اس وقت کے متنازع قانون کے مطابق جب بارش تھمی تو جنوبی افریقہ کا ہدف تو 22 ہی تھا لیکن یہ اسے صرف ایک گیند پر بنانا تھا جو یقینی طور پر نا ممکن تھا۔ اس وقت سے یہ ٹیم ایسا گری کہ کئی بار سیمی فائنل میں پہنچی مگر جیت کے خواب کو حقیقت نہ بنا سکی۔
ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کا آغاز 2007 میں ان کے ملک جنوبی افریقہ سے ہی ہوا لیکن اس اولین ایونٹ میں وہ سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکی۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا ایڈیشن 2009 میں ہوا جس میں سیمی فائنل میں پاکستان نے اسے ہرایا۔ گزشتہ ورلڈ کپ میں ہالینڈ نے جنوبی افر یقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔
اس بار بھی جنوبی افریقہ کی ٹیم تگڑی ہے، جس میں کوئنٹن ڈی کاک، ریزا ہینڈرکس، مارکرم (کپتان)، رکلٹن، کلاسن، ملر اور اسٹبز جیسے ورلڈ کلاس ہٹرز ہیں تو ربادا، نورخیا، بارٹ مین، کوٹزی اورینسین جیسے فاسٹ بولرز بھی اسکواڈ کا حصہ ہیں تاہم اسپن میں ورائٹی کم ہے اور تینوں اسپنر بائیں ہاتھ سے بولنگ کرتے ہیں۔
جنوبی افریقہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ٹرافی جیتنے کا عزم لے کر ورلڈ کپ میں اپنے سفر کا آغاز کرے گی، لیکن کیا روایت پھر دہرائی جائے گی اور وہ خالی ہاتھ جائے گی یا اس بار نئی تاریخ رقم کر کے وہ چمچاتی ٹرافی اٹھائے گی اس کے لیے شائقین کرکٹ کو کچھ انتظار کرنا ہوگا۔