10 C
Dublin
پیر, مئی 20, 2024
اشتہار

تنویر ڈار: ہاکی کا ناقابلِ‌ فراموش کھلاڑی

اشتہار

حیرت انگیز

ہاکی کے کھیل میں پاکستانی ٹیم کی شان دار فتوحات اور بین الاقوامی سطح‌ پر کھلاڑیوں کی بے مثال کارکردگی تو ضرور ماضی بن گئی ہے، لیکن تنویر ڈار کا نام ہاکی کی تاریخ میں آج بھی زندہ ہے۔ تنویر ڈار 11 فروری 1998ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔

تنویر ڈار 4 جون 1947ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی منیر ڈار بھی ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے جنھیں دیکھ کر تنویر ڈار نے بھی ہاکی کے کھیل میں دل چسپی لی اور وہ وقت آیا جب تنویر ڈار نے بھی پاکستانی ٹیم میں‌ شامل ہو کر ہاکی کے میدان میں فتوحات سمیٹیں‌۔ 1966ء میں اپنے بھائی منیر ڈار کی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد تنویر ڈار پاکستان کی ہاکی ٹیم کے مستقل فل بیک بن گئے تھے۔ 1968ء کے اولمپکس، 1970ء کے ایشیائی کھیلوں اور 1971ء کے عالمی کپ میں تنویر ڈار نے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان تینوں ٹورنامنٹس میں پاکستان نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ تنویر ڈار نے مجموعی طور پر 80 بین الاقوامی میچ کھیلے اور مجموعی طور پر 48 گول اسکور کیے۔ 1971ء کے عالمی کپ میں انھوں نے تین ہیٹ ٹرکس کیں۔ ان کا یہ ریکارڈ اب تک کوئی کھلاڑی نہیں‌ توڑ سکا۔ ہاکی کے بین الاقوامی سطح کے میچوں میں‌ پاکستانی ٹیم کی جانب سے شان دار کھیل کا مظاہرہ کرکے دنیا بھر میں‌ بطور کھلاڑی تنویر ڈار نے بڑا نام پیدا کیا۔ اولمپئن تنویر ڈار سے متعلق ایک میچ کے دوران مبصّر کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا، ’’تنویر ڈار کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور ہمیشہ کی جاتی رہے گی۔‘‘جس کا پس منظر یوں ہے کہ 1972ء کے میونخ اولمپکس کے دوران ریڈیو پاکستان کے دو ہاکی کمنٹیٹرز ایس ایم نقی اور فاروق مظہر موجود تھے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کو تنویر ڈار سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن وہ ٹورنامنٹ سے پہلے ایک پریکٹس میچ میں زخمی ہو گئے۔ چنانچہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تو لیفٹ فل بیک اخترالاسلام کو رائٹ فل بیک کی پوزیشن پر منتقل کر دیا گیا اور لیفٹ فل بیک کے طور پر ریزرو کھلاڑی منورالزمان آگئے۔ تنویر ڈار نے ٹورنامنٹ کے سارے میچ گراؤنڈ سے باہر رہتے ہوئے دیکھے۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں میڈیا کا فوکس تنویر ڈار پر رہا۔ پاکستان کا اسپین کے خلاف پول میچ برابر رہا تھا جب کہ مغربی جرمنی کے ساتھ پول میچ ہم ہار گئے تھے۔ ان دونوں میچوں کے دوران ریڈیو کمنٹیٹر یہ جملہ دہراتے رہے تھے۔ پاکستان سیمی فائنل اور پھر فائنل میں بھی پہنچ گیا۔ فائنل میں پاکستان مغربی جرمنی سے پول میچ کی طرح پھر ہار گیا اور اسی میچ کے دوران ریڈیو کمنٹری کرنے والے یہ جملہ ادا کرتے رہے جو زبان زدِ عام ہوگیا۔

قومی ٹیم کی طرف سے پہلی بار تنویر ڈار نے ستمبر 1966ء میں مغربی جرمنی کے دورۂ پاکستان میں پشاور ٹیسٹ کھیلا تھا۔ تنویر ڈار نے میکسیکو اولمپکس میں چھ گول کیے تھے۔ بنکاک ایشین گیمز میں ان کے حصے میں دو گول جب کہ بارسلونا ورلڈ کپ میں آٹھ گولز کے ساتھ وہ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر تھے۔

- Advertisement -

اولمپئن تنویر ڈار پینلٹی کارنر پر فلائنگ شاٹ کے ذریعے گول بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔ یورپی ٹیمیں اس وجہ سے تنویر ڈار سے بہت گھبراتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے تنویر ڈار کے پینلٹی کارنر شارٹ سے گھبرا کر یورپی ٹیموں نے ہاکی رولز میں تبدیلی کرکے پینلٹی کارنر پر ہٹ کی گئی گیند کا 18 انچ کے بورڈ پر لگنا لازمی قرار دے دیا تھا۔ اس زمانے میں ہاکی کے کھیل میں یورپی ٹیموں کی اجارہ داری تھی اور وہ اپنے فائدے کے لیے رولز میں تبدیلی کرا لیتی تھیں۔

تنویر ڈار لاہور کے ڈی ایچ اے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں