تل ابیب: اسرائیلی کابینہ نے فلسطین سے جمع ہونے والے ٹیکس فنڈز ناروے کے پاس رکھنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکام نے اتوار کو بتایا کہ کابینہ نے حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی پٹی کے لیے مختص کردہ ٹیکس فنڈز کو فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرنے کی بجائے ناروے کے پاس رکھنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔
1990 کے عشرے میں طے پانے والے عبوری امن معاہدوں کے تحت اسرائیل کی وزارتِ خزانہ فلسطینیوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرتی ہے اور پھر یہ فنڈز مغربی حمایت یافتہ افراد کو ماہانہ بنیاد پر منتقل کر دیتی ہے۔
Any deductions from our financial rights or any conditions imposed by Israel that prevent the PA from paying our people in the Gaza Strip are rejected by us. We call on the international community to stop this behavior based on piracy and stealing the money of the Palestinian… https://t.co/IImWkCCs8r
— حسين الشيخ Hussein AlSheikh (@HusseinSheikhpl) January 21, 2024
اس فنڈز کے انتظامات پر مسلسل جھگڑے ہوتے رہے ہیں، اسرائیل کا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ یہ فنڈز حماس تک نہ پہنچیں۔ واضح رہے کہ حماس نے ایک مختصر خانہ جنگی اور اسرائیل کے آباد کاروں اور فوجی دستوں کے انخلا کے دو سال بعد 2007 میں مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اٹھارٹی سے غزہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے ایک بیان کے مطابق ٹیکس فنڈز کے بارے میں کابینہ کے اس فیصلے کو ناروے اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔
نیتن یاہو کا حماس کی شرائط پر رد عمل
تاہم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ نے ایکس پر اتوار کے روز کہا کہ ’’ہمارے مالی حقوق میں سے کوئی بھی کٹوتی یا اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ کوئی بھی شرائط، جو غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں کو ادائیگی کرنے سے روکیں، ہم انھیں مسترد کرتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے کہا ’’ایک بھی شیکل اب غزہ نہیں جائے گا۔‘‘