تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

وہیل کی ’قے‘ نے ماہی گیر کی زندگی بدل دی

کیا آپ نے ایسا خوش قسمت مچھیرا دیکھا جو مچھلیاں پکڑنے جائے مگر مچھلی کے پیٹ کی غلاظت لے کر آئے اور پھر امیر ہوجائے۔

ایسے واقعات شاز و نادر ہی پیش آتے ہیں کیونکہ پہلے تو سمندر کسی کا دوست نہیں اور دوسرا کسی ماہی گیر کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ ایسی چیزیں تلاش کرے جس سے اُس کی قسمت بدل جائے۔

مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خوش قسمت شکاری مچھلی کے انتظار میں رہتے ہیں مگر اُن کے ہاتھ ایسی کوئی نایاب چیز لگ جاتی ہے جس سے اُن کے وارے نہارے ہوجاتے ہیں اوراُن کا شمار پیسے والوں میں ہونے لگتا ہے۔

اسی طرح تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے  غریب ماہی گیر بڑے پیمانے پر شکار کے لیے سمندر میں گئے تو اُن میں سے ایک بیس سالہ نوجوان  نظر سمندر میں واقع پہاڑی (جزیرے) پر موجود ایک عجیب و غریب چیز پر پڑی۔

نوجوان نے وہ چیز اٹھائی اور پھر کشتی میں ڈال کر اُسے ساحل تک لے آیا۔ ماہی گیر کو اس بات کا علم تھا کہ اُسے جو چیز سمندر سے ملی وہ قیمتی اور نایاب ہے۔

ساحل پر آنے کے بعد ماہی گیر کو علم ہوا کہ اُسے جو نایاب چیز ملی وہ دراصل ’وہیل کی قے‘ ہے۔ یہ خبر پھیلتے ہی ساحل پر خریدار بڑی تعداد میں پہنچے اور انہوں نے ’پیٹ کی یہ غلاظت‘ خریدنے کے لیے بولی لگانے کا عمل شروع کیا۔

نوجوان ماہی گیر کا نام چیلر مچائی مھاپن ہے۔ اُس نے بتایا کہ قے  اُسے سامیلا کے ساحل سے ملی جس کا وزن 7 کلوگرام تک ہے اور یہ 2 لاکھ 10 ہزار برطانوی پاؤنڈز (چار کروڑ 59 لاکھ 42 ہزار روپے) سے زائد میں فروخت ہوئی۔

مزید پڑھیں: وہیل کے پیٹ کی غلاظت 51 کروڑ روپے سے زائد میں فروخت

ماہرین کے مطابق مچھیرے کو وہیل کا جو بلب (قے کا ڈھیر) ملا وہ ایک ماہ میں ملنے والا دوسرا بڑا ٹکڑا ہے۔ وہیل کی قے کو خوشبو یا پرفیوم بنانے والی کمپنیاں خریدتی ہیں تاکہ وہ اپنے پرفیومز میں اسے استعمال کرسکیں۔

Comments

- Advertisement -