تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

متنازع رن آؤٹ اور شکست کے جنازے کی راکھ

کھیلوں کی تاریخ میں‌ ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کا نام بابائے کرکٹ کے طور پر محفوظ ہے۔ انھیں کرکٹ کا پہلا سپر اسٹار بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ وہ ناقدین نظر میں اسپورٹس مین اسپرٹ سے عاری کھلاڑی تھے، لیکن ڈبلیو جی گریس ہی تھے جنھوں نے کرکٹ کو جدید اور زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے میں مدد دی اور مختلف تکنیکوں کو متعارف کروایا۔ ان کے وضع کردہ قوانین اور کھیل کے طریقے میں تبدیلیوں کو کام یاب اختراع مانا جاتا ہے۔

ڈبلیو جی گریس کرکٹ کے شیدائی خاندان کے فرد تھے۔ ان کے والدین کو کرکٹ کا جنون تھا اور اس کنبے کا ہر فرد اس کھیل سے وابستہ رہا۔ ولیم گلبرٹ گریس اپنے خاندان میں وہ گلبرٹ کے نام سے مشہور تھے اور کرکٹ کی دنیا میں آئے تو ڈاکٹر کے نام سے پہچانے گئے جب کہ مداحوں نے انھیں مختلف القابات سے پکارا۔

وہ پروفیشنل کرکٹر نہیں تھے لیکن برطانیہ کی جانب سے کرکٹ میچوں میں ان کی پرفارمنس یادگار جب کہ اس کھیل کو سنوارنے میں خدمات پر انھیں دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔

کرکٹ کی دنیا میں ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس سے کئی واقعات بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں انھیں آؤٹ ہونا پسند نہیں‌ تھا، اور امپائر فیصلے پر جرح کے لیے بھی تیّار رہتے تھے۔

ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس کا کریئر سنہ 1865 سے 1908 پر محیط ہے۔ انھوں نے کئی میچ کھیلے اور شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھیں ایک آل راؤنڈر مانا جاتا ہے۔ ڈبلیو جی گریس نے انگلینڈ کی ٹیم کی قیادت کرنے کے علاوہ مقامی سطح پر بھی ٹیموں کی کپتانی کی۔

اس برطانوی کھلاڑی کی شخصیت کے بھی کچھ دل چسپ پہلو سامنے آئے ہیں اور کرکٹ کے حوالے سے چند تنازعات بھی جن کی بنیاد پر ناقدین کہتے ہیں کہ ان میں اسپورٹس مین اسپرٹ کا فقدان تھا۔ اس ضمن میں‌ ایک متنازع رن آؤٹ کی مثال دی جاتی ہے۔ یہیں سے ایشیز کی بھی ابتدا ہوئی تھی۔

واقعہ یہ ہے کہ سنہ 1882 کے اوول ٹیسٹ میں ڈاکٹر ڈبلیو جی گریس نے آسٹریلوی بیٹسمین سیمی جونز کو اس وقت رن آؤٹ کر دیا جب کھلاڑی یہ سمجھ رہا تھا کہ گیند ڈیڈ ہوچکی ہے اور وہ کریز سے باہر تھا۔ اس پر کھیل کے میدان میں اختلاف اور بحث نے جنم لیا اور حریف ٹیم کے کھلاڑیوں میں غم و غصّہ پایا گیا۔

آسٹریلوی ٹیم نے اسے ڈبلیو جی گریس کی دھوکہ دہی سے تعبیر کیا اور کہا کہ بیٹسمین کو غلط آؤٹ کیا ہے۔ امپائر اور تماشائیوں کو بعد میں معلوم ہوا کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کا غصّہ کتنا شدید تھا۔

اس متنازع رن آؤٹ کے بعد برطانیہ کے کھلاڑیوں نے فریڈ اسپورفرتھ کی بولنگ کا سامنا کیا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک جارح اور جوشیلے بولر کا سامنا کررہے ہیں جس کا یہ انداز انھیں شکست سے دوچار کردے گا۔ اس میچ میں فریڈ اسپورفرتھ کی بولنگ نے آسٹریلیا کو سات رنز کی ڈرامائی جیت سے ہمکنار کر دیا۔

اس شکست نے انگلینڈ میں‌ تہلکہ مچا دیا۔ روایتی حریف کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر پہلی شکست کو اخباروں میں‌ خوب جگہ ملی۔ سپورٹنگ ٹائمز نے طنزیہ پیرائے میں لکھا کہ انگلش کرکٹ کی اوول میں موت واقع ہو گئی ہے، اسے جلایا جائے گا اور اس کی راکھ آسٹریلیا بھیجی جائے گی۔

یہیں سے ایشیز سیریز کی ابتدا ہوئی اور یہ ایک ٹیسٹ کرکٹ مقابلہ مشہور ہوا جو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ یہ کرکٹ کی تاریخ کی سب سے پرانی سیریز ہے جس کا آغاز مذکورہ اوول ٹیسٹ کے ساتھ ہو گیا تھا۔

ایشیز دراصل پانچ انچ کی ایک گلدان نما ٹرافی ہے جس میں کرکٹ کی گیند یا وکٹوں پر رکھی جانے والی ’بیلز‘ کی راکھ ہوتی ہے۔ اس کی تاریخ کافی دل چسپ ہے اور متنازع بھی ہے۔ آسٹریلیا سے 1882 میں انگلینڈ کی شکست کے بعد اخبار نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس شکست کے جنازے کی راکھ کو اب آسٹریلیا لے جایا جائے گا۔ پھر جب انگلینڈ نے 83-1882 میں سڈنی میں 69 رن سے تیسرا ٹیسٹ جیتا تو ملبورن کی چند عورتوں نے انگلینڈ کی ٹیم کے کپتان کو ایک گل دان میں راکھ رکھ کر پیش کی تھی۔

Comments

- Advertisement -