تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کی سماعت مکمل کر لی ہے۔

فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں شام 4 بجے تک کا وقفہ دیا اور پھر مختصر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ کچھ دیر میں سنایا جائےگا تمام وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سیاسی قائدین مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔

اس موقع پر حکمران اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے مشاورت کرنی ہے اس لیے سماعت کل تک ملتوی کی جائے۔

تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کی یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ آج ہی نمٹانا چاہتے ہیں۔ عدالت کا سارا کام ایک اسی مقدمے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب لوگ اپنے اپنے لیڈروں سے فون پر رابطہ کرسکتے ہیں، زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیا یہ اتنا آسان معاملہ ہے کہ فون پر مشورہ کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر 4 بجے تک وقفہ کرتے ہیں جس کے بعد فیصلہ کریں گے اور سماعت میں 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے مشورے سے مشروط نہیں بلکہ وقت کی قید سے مشروط ہے، 9 اپریل تاریخ مقرر کرنے کا مقصد آئینی مدت میں انتخابات کروانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صدر ناصرف قومی بلکہ صوبائی اسمبلی کے لیے بھی تاریخ دے سکتا ہے جبکہ آرٹیکل 105 تھری میں باقاعدہ اس میں استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صدر کو بغیر ایڈوائس انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار آئین نے دیا ہے، آرٹیکل 57 سیکشن ون کے تحت صدر تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔

اس سے قبل ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے اس میں جو رکاوٹیں ہیں وہ تاریخ دینے کے بعد دور کی جاسکتی ہیں۔ کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں۔ انتخابات کرانا لازم ہے اور اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے۔ ہر اسمبلی کا الیکشن 5 سال کے لیے ہوتا ہے۔ یہ قانون حکومت کا آئینی اختیار ہے۔ ملک معاشی مشکل حالات میں ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آئینی انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا کیونکہ عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں۔ ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا۔

عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے۔ آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو۔ قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا۔ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے لیکن ملک میں پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینرز کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے۔

آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔ اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا۔ معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل شہزاد الہٰی، الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، حکمران اتحادی جماعتوں کے مشترکہ وکیل فاروق ایچ نائیک، صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیے۔

Comments

- Advertisement -