سائنسی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں پائی جانے والی کوروناوائرس کی نئی قسم سے متاثر افراد کے اسپتال میں داخلے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈنمارک میں ہونے والی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ وبا کی برطانوی قسم سے مریض کے اسپتال داخلے کا خطرہ زیادہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ حالیہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں نئی قسم کو زیادہ متعدی اور جان لیوا بھی قرار دیا جاچکا ہے اور اب نئے دعوے نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا۔
اس تحقیق میں بی 117 نامی برطانوی قسم سے متاثر ہونے والے 2155 افراد کو شامل کیا گیا جن میں سے 128 کو شدید بیماری کے باعث اسپتال داخل ہونا پڑا اور یہ شرح پرانی قسم کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ ہے۔
برطانیہ سے آغاز ہونے والی یہ نئی قسم اب ڈنمارک بھی پہنچ چکی ہے جہاں لوگ متاثر ہورہے ہیں، سائنس دانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وائرس کی نئی اقسام دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پہنچیں گی۔ جبکہ برطانوی سائنسدان کئی ماہ سے اس نئی قسم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے کام کررہے ہیں۔
کوروناوائرس کی نئی قسم کی عام علامات بھی سامنے آگئیں
رواں ماہ کے آغاز میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی کوروناوائرس کی نئی قسم میں مزید جینیاتی تبدیلیوں کا انکشاف ہوا تھا۔ ماہرین نے کہا تھا کہ برطانیہ میں کوروناوائرس نئی قسم مزید میوٹیشن کے عمل سے گزر رہی ہے جو پریشان کن معاملہ ہے، وائرس کی نئی قسم میں ‘میوٹیشن ای 484’ کا عمل میں ہورہا ہے۔
کورونا کی نئی قسم کے بعد نیا چیلنج کھڑا ہوگیا
ماہرین کے مطابق جینیات کی یہ تبدیلی اس سے قبل جنوبی افریقا اور برازیل میں ریکارڈ کی جاچکی ہے۔ سائنس دانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مزید جینیاتی تبدیلیاں ویکسین اور علاج کے طریقہ کار پر اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔
دوسری جانب جنوبی افریقا کے طبی ماہرین نے تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ملک میں پائی جانے والی کورونا کی قسم موجودہ ویکسین کے خلاف سخت مزاحمت دے سکتی ہے جس کے لیے ویکسینز کو ری ڈیزائن کرنا ہوگا۔ اس ریسرچ میں مریضوں کے بلڈ پلازما اور وائرس کی میوٹیشنز کے میلاپ کا مشاہدہ کیا گیا۔