ہفتہ, جنوری 18, 2025
اشتہار

شیرِ میسور ٹیپو سلطان کا محل اور نوادرات

اشتہار

حیرت انگیز

ریاست میسور اور ٹیپو سلطان کا تذکرہ تو آج بھی کیا جاتا ہے، لیکن بہت کم لوگ سری رنگا پٹنم کو یاد رکھ پاتے ہیں جو میسور شہر سے 15 کلومیٹر دور ہے۔ یہ شہر ٹیپو سلطان کی یادگار ہے جہاں اس خاندان کی قبریں موجود ہیں اور کبھی یہاں ٹیپو سلطان کا ایک محل بھی ہوا کرتا تھا۔

آج کا سری رنگا پٹنم کئی تاریخی کرداروں اور عمارات کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے جن میں گنبد کے نام سے مشہور میسور کے مسلمان حکم رانوں کے وہ مقابر بھی شامل ہیں جو طویل رقبے پر محیط ایک باغ کے وسط میں نظر آتے ہیں۔ یہاں شیرِ میسور ٹیپو سلطان، ان کے والد حیدر علی اور ان کی والدہ فخر النساء بیگم کی قبریں موجود ہیں۔ یہ مقابر انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے ٹیپو سلطان نے تعمیر کروائے تھے۔ وہ 1799ء میں سری رنگا پٹنم کے محاصرے میں شہید ہوئے تھے اور بعد میں انھیں یہاں دفن کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

ہم تذکرہ کر رہے ہیں ٹیپو کے اس محل کا جو کبھی اس سورما کی رہائش گاہ تھا۔ سری رنگا پٹنم میں ایک دوسرا محل بھی ہے جس کی شان و شوکت آج بھی کافی حد تک باقی ہے اور یہ لکڑی کا محل ہے جسے حیدر علی نے بنوایا تھا۔ اس محل کو دریائے دولت باغ کا نام دیا گیا تھا۔

- Advertisement -

ٹیپو سلطان کا محل اب کھنڈر ہوچکا ہے۔ اس کی چھت کا نام و نشان باقی نہیں اور تمام دیواریں ڈھے چکی ہیں۔ اس محل کا اب صرف فرش باقی رہا ہے۔ میسور کے بہادر راجا ٹیپو سلطان کی کئی یادیں اور چند یادگاریں سری رنگا پٹنم میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہاں‌ سیاح آتے ہیں اور اس برباد محل کے فرش پر چلتے ہوئے ماضی کو چشمِ تصور سے دیکھتے ہیں، جو انھیں انگریز فوج کے سامنے ڈٹ جانے والے ہندوستان کے ایک بہادر اور غیرت مند حکم راں کی یاد دلاتا ہے۔ ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ان حکم رانوں کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں‌ نے اپنی شجاعت اور بہادری سے سلطنتِ میسور کو برطانوی سامراج کے لیے ناقابل تسخیر بنا رکھا تھا۔

محققین کے مطابق ٹیپو سلطان کے دورِ حکومت میں میسور ایک وسیع و مستحکم سلطنت تھی، جس کی فوج اور وسائل بے پناہ تھے۔ ان کے پاس منظّم فوج، 60 ہزار گھوڑے، 900 ہاتھی، اور بہت سے ہتھیار تھے۔ ریاست کی سالانہ آمدنی ساڑھے سات کروڑ سے زیادہ تھی۔

فوجی اور معاشی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے حب الوطن حکم راں ہونے کا ثبوت دینے کے باوجود ٹیپو سلطان کے لیے بعض مؤرخین نے لکھا کہ ان کے دور میں‌ ہندوؤں اور عیسائیوں کو تفریق کا سامنا تھا اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔ اس طرح ٹیپو سلطان کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن بی اے نیلیئر اور دوسرے کئی مؤرخ ان باتوں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ بتاتے ہیں‌ کہ ٹیپو کے دور میں ہندو بھی بطور افسر انتظامیہ کا حصّہ رہے اور غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو سرکاری مالی امداد بھی دی جاتی تھی۔

4 مئی، 1799ء کو ٹیپو سلطان نے یہیں شہادت پائی اور ان کا مدفن بھی یہیں ہے۔ برٹش میوزیم کے ایک کمرہ میں جنوبی ایشیا سے متعلق اشیا بھی رکھی گئی ہیں۔ اس میں کئی نوادرات اور تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء چین، تبت، بھارت، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور پاکستان سے متعلق ہیں۔ خاص طور پر متحدہ ہندوستان اور برطانوی راج کے زمانے کی بیشتر اشیا یہاں موجود ہیں جن میں ٹیپو سلطان کی تلوار بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی ٹیپو سلطان کی تلواریں برطانیہ کے دوسرے عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ دو تلواریں ایڈنبرا کے قلعے میں اور ایک تلوار برٹش میوزیم میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دو تلواریں وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم لندن میں موجود ہیں۔ یہ اور کئی اشیاء انگریز فوج کے افسران ہندوستان سے لوٹ مار کر کے یہاں لائے تھے۔ ایک سونے کی انگوٹھی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے شہادت کے بعد ٹیپو سلطان کی انگلی سے اتارا گیا تھا اور آرتھر ہنری کول جو اس وقت میسور کا ریذیڈنٹ تھا، اپنے ساتھ برطانیہ لے آیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں