اسلام آباد: ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافیوں پر تشدد کے معاملے میں 12 دن گزرنے کے باوجود اسلام آباد پولیس مقدمہ درج نہیں کر سکی۔
تفصیلات کے مطابق آج ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کے مقدمے کے اندراج کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد پولیس نے عدالتی حکم پر واقعے سے متعلق حتمی رپورٹ جمع کرا دی، پولیس نے گزشتہ سماعت پر عبوری رپورٹ بغیر دستخط کے جمع کرائی تھی۔
عدالت نے اسٹنٹ کمشنر اور ملوث اہل کاروں کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، اسلام آباد سیشن کورٹ میں جسٹس آف پیس نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں پولیس کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کے واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اس واقعے کو اب بارہ دن گزر چکے ہیں۔
تشدد کے شکار صحافیوں کے وکیل زاہد آصف نے پولیس کی انکوائری رپورٹ پر عدالت میں شعر پڑھ دیا، انھوں نے کہا ’’وہی مدعی وہی منصف، ہمیں یقین تھا ہمارا ہی قصور نکلے گا۔‘‘ وکیل نے صحافیوں پر تشدد کی ویڈیو بھی عدالت میں پیش کر دی۔
زاہد آصف نے عدالت کو بتایا کہ 28 فروری کو اسسٹنٹ کمشنر اور ملوث اہل کاروں کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دی گئی تھی، لیکن پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا، اس لیے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ مقدمے کے اندراج کا حکم دیا جائے۔
وکیل نے کہا کہ غیر قانونی طور پر صحافیوں کو صحافتی ذمہ داری ادا کرنے سے روکا گیا، انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے بغیر انکوائری غیر قانونی ہے، انکوائری رپورٹ تو عدالت میں جمع کروا دی گئی ہے، لیکن جو رپورٹ جمع کروانی تھیں وہ کروائی ہی نہیں گئی، کیا کوئی شواہد پیش کیے گئے کہ ہائیکورٹ میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی تھی؟ کیا اس کیس میں ان کیمرہ کارروائی کا کوئی حکم تھا؟
وکیل نے بحث کرتے ہوئے کہا یہ کیسے ممکن ہے وہاں ڈیوٹی کرنے والے پولیس اہل کاروں کو ان صحافیوں کا علم نہیں تھا، یہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو مارا پیٹا نہیں گیا، ہم مار پیٹ کی آپ کو فوٹیج دکھا دیتے ہیں، اس ویڈیو میں دیکھ لیں کیا یہ زبردستی داخل ہوئے ہیں؟
وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف ہائیکورٹ داخل ہونے پر مقدمہ درج کیا، جوڈیشل کمپلیکس کی دو ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، لیکن صحافیوں کا کسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا، کسی سیاسی کارکن نے عدالت کے باہر کچھ کیا ہے تو ہمارا اس سے کیا تعلق ہے۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک طرف کہا گیا کہ اے سی عبداللہ کا اس کیس سے تعلق نہیں، جب کہ اے سی عبداللہ بیان دے رہا ہے کہ میری ڈیوٹی سیکیورٹی کو سپر وائز کرنے کے لیے تھی، اے سی عبداللہ اور پولیس کے بیانات میں تضاد ہے۔
وکیل نے بحث کی کہ ایف آئی آر درج کیے بغیر کیسے تفتیش کی جا سکتی ہے، ایف آئی آر درج کرنے کے بعد تفتیش کا مرحلہ آتا ہے، ایف آئی آر درج کئے بغیر پولیس کو انکوائری کا اختیار ہی نہیں، اس لیے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اندراج مقدمہ میں نہ آتے تو ہم انکوائری نہ کرتے، گیٹ ون سے لوگ عمران خان کے ساتھ داخل ہوئے، ہائیکورٹ کا حکم تھا کہ گیٹ نمبر ون کوئی دوسرا استعمال نہیں کرے گا، ہم پہلے سے درج ایف آئی آر میں ان کا مؤقف لے لیتے ہیں، ایک وقوعے کی دوسری ایف آئی آر نہیں ہو سکتی، صغریٰ بی بی کیس بھی موجود ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ غیر قانونی طور پر اندر داخل ہوئے تو پھر تو آپ صحافیوں کو بھی ملزم بنا لیتے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ دیکھا جائے گا کہ ان کا جرم کیا بنتا ہے، عدالت نے کہا کہ بارہ دن ہو گئے ہیں یہ بات آپ نے اب تک طے کیوں نہیں کی؟
وکیل زاہد آصف نے کہا کہ ایک جتھے کا ایک جگہ سے دوسری جگہ داخل ہونا تو مقدمہ ایک ہی بنتا ہے، صحافی اس جتھے کا حصہ ہی نہیں، پولیس نے ہائی کورٹ کے باہر واقعے کا مقدمہ درج کیا ہے، صحافی تو احاطہ عدالت کے اندر موجود تھے۔
صحافی ثاقب بشیر نے عدالت میں بیان میں کہا کہ ہم نے قانونی رستہ اختیار کیا ہے ہمیں انصاف دیا جائے، اگر قانون ہمیں انصاف نہیں دیتا تو سمجھا جائے گا کہ آئندہ خود ہی اپنا بدلا لے لیں۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
واضح رہے کہ عدالت نے ایس پی کمپلینٹ سیل اور ایس ایچ او تھانہ رمنا کو نوٹس جاری کر رکھا ہے، ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافی ثاقب بشیر، ذیشان سید، ادریس عباسی اور شاہ خالد پر تشدد کیا گیا تھا ، اندراج مقدمہ کی درخواست صحافیوں کی کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔