پیر, فروری 24, 2025
اشتہار

انگریز دور کے بدیسی پیڑ اور ماحولیاتی تبدیلیاں

اشتہار

حیرت انگیز

یہ زمین ہمیشہ سے آب و ہوا میں معمولی اور غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھتی آرہی ہے اور ان قدرتی تغیرات کے اثرات بھی برداشت کرتی رہی ہے، لیکن موجودہ دور میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید منفی اثرات ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کئی دوسرے اقدامات کے ساتھ پیڑ پودے لگانے کی ضرورت ہے۔

چند دہائیوں کے دوران انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں‌ عالمی درجۂ حرارت میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس نے ہر نوع کے جانداروں کی بقا کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کے نزدیک پیڑ پودے لگانا اور زمین کو سبزے سے آراستہ کرنا از حد ضروری ہے۔

پاکستان کی بات کریں‌ تو موسمِ گرما میں کراچی سمیت دیگر شہر گزشتہ ایک دہائی کے دوران شدید متاثر ہوئے ہیں اور ہیٹ ویو ہر سال ہلاکتوں کا باعث بن رہی ہے۔ دوسری طرف شہروں میں سڑکیں، پل اور عمارتیں‌ بنانے اور دوسرے مقاصد کے لیے درختوں کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے۔ برطانوی دور کی بات کریں تو کراچی میں پہلے شہری اور متعلقہ ادارے کئی طرح کے پودے لگاتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر نباتات کا تعلق اسی خطّے سے تھا اور یہ یہاں کے موسم اور زمین سے ہم آہنگ ہوتے تھے۔ انگریز دور میں کراچی میں مقامی اور روایتی پیڑ پودوں کے ساتھ دوسرے خطوں سے لائے گئے درخت بھی لگائے گئے تھے جو کئی دہائیوں تک یہاں‌ موسم کی سختیاں‌ جھیلتے رہے اور پھر انھیں انسانی آبادی کی ضرورتیں نگل گئیں۔ انگریز دور میں یہاں بڑی تعداد میں نیم کے درخت لگائے گئے تھے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ نیم کے درخت سڑکوں‌ کے کنارے اور اکثر میدانوں میں‌ دیکھے جاسکتے تھے۔ لیکن پھر ان کو بھی کاٹ دیا گیا۔ اب یہ نیم کے درخت بہت کم رہ گئے ہیں۔

ماہرینِ نباتات کا کہنا ہے کہ درخت ہمیں خوراک اور صاف پانی فراہم کرتے ہوئے زمین کی مختلف شکلوں میں حفاظت کرتے ہیں، اور ہمارے مزاج کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے بعد کیے گئے مختلف سروے بتاتے ہیں‌ کہ کراچی جیسے شہر کے لیے درخت اشد ضروری ہیں۔ خصوصاً سڑکوں پر اور مختلف راستوں‌ پر گھنے اور سایہ درخت لگانے ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ مقامی طور پر نشوونما پانے والے ہوں یا کم ازکم ان کا تعلق اسی خطّے سے ہو۔ یہ کام منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کرنا ہوگا اور ان درختوں کی حفاظت یقینی بنانا ہوگی۔

کراچی میں نیم کے پیڑ ہی نہیں پیپل اور کیکر کے درخت قیام پاکستان سے سو، ڈیڑھ سو سال پہلے لگائے گئے تھے۔ یہ درخت برطانوی دور کی بلدیہ اور مقامی لوگوں نے لگائے تھے جنھیں ہم نے بے دردی سے کاٹ ڈالا۔ بعد میں یہاں بڑی تعداد میں لگنم اور سفیدے کے بدیسی درخت لگا دیے گئے۔ ماہرین کے مطابق سفیدے کو مقامی درختوں پر ترجیح دی گئی، کیوں کہ اس کی شجر کاری میں کام یابی کا امکان سو فی صد تھا۔ اس کا پودا زمین میں لگا دیا جائے تو وہ لازماً ایک بلند درخت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جانور اسے نہیں کھانا پسند کرتے۔ یوں ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں پیش آتی۔ ماہرین کے مطابق اس غیرمقامی پیڑ سفیدے کے بعد ہم نے کونو کارپس کا تجربہ کیا۔ لیکن ساتھ ہی صدیوں پرانے اور کئی سال تک ماحول کے سرد و گرم کا مقابلہ کرنے والے مقامی اور افادیت کے حامل لاکھوں درخت بے رحمی سے کاٹ ڈالے۔ اس کے بعد لوگوں نے شہر میں اور اپنے گھروں کے باہر کیاریوں میں سجاوٹی پودے، جھاڑیاں اور غیرملکی پودے اگا دیے۔ لیکن پیپل، برگد، نیم اور کیکر جیسے شان دار اور حیرت انگیز افادیت کے حامل درختوں کا بدل ممکن نہیں تھا۔ ان حالات نے جہاں کراچی میں موسم کی سختی کو بڑھایا وہیں ان بڑے اور گھنے درختوں میں آباد پرندوں کی کئی اقسام اچانک بے گھر ہو گئیں۔ ایک جائزے کے مطابق 1970 کے عشرے میں کراچی میں مختلف اقسام کے 170 پرندے پائے جاتے تھے جو وقت کے ساتھ اپنا مسکن کھو بیٹھے اور قدرتی ماحول برقرار نہ رہنے کی وجہ سے انھیں یہاں‌ سے کوچ کرنا پڑا۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق ہر خطّے کے کچھ مقامی اور روایتی پیڑ، پودے ہوتے ہیں جن کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ غیر مقامی اور صرف اس خصوصیت کی بنا پر وہ پودے لگانا دانش مندی نہیں جو تیزی سے پروان چڑھیں۔ ہمیں ماحول کے لیے ان کی اہمیت اور افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا۔

کیکر کا درخت بھی ہمارے خطّے میں انگریزوں نے متعارف کرایا تھا اور یہ میکسیکو سے لایا گیا تھا۔ سفیدے کا بھی درخت انگریزوں نے ہی یہاں متعارف کرایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد لگنم کا درخت لاطینی امریکا سے لا کر یہاں لگایا گیا۔

سابق سٹی ناظم، مصطفی کمال کے دور میں کراچی میں جو درخت بکثرت لگایا گیا اس کا نام کونو کارپس براڈ لیو کہتے ہے۔ یہ امریکا کی شمالی ریاست فلوریڈا کا پیڑ ہے۔ کھجور کا درخت بھی مقامی نہیں ہے۔ اسے یہاں سب سے پہلے سکندرِ اعظم لایا تھا۔ پھر عرب بھی ساتھ لائے۔ اس کا اصل وطن عراق ہے۔ اب یہ یہاں خوب اگتا ہے اور سندھ کے بعض علاقوں میں بہترین فصل دیتا ہے۔

پاکستان ہی نہیں یورپ اور امریکا میں بھی بڑی تعداد میں بدیسی انواع کے پودے لگائے گئے تھے لیکن ماہرین نباتات کی تحقیق میں ان کے نقصانات سامنے آنے پر حکومتوں نے سنجیدگی سے اپنے ماحول کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے اور اب وہاں مقامی اور روایتی پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں اور کراچی جیسے شہر میں بدیسی پیڑوں کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ مقامی اور روایتی انواع کے درخت لگائے جائیں اور جب یہ بڑے ہو جائیں تو بدیسی اور ماحول و زمین کے لیے خطرہ بننے والے دوسری انواع کے درخت کاٹ دیے جائیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں