بدھ, مارچ 26, 2025
اشتہار

ٹرمپ بمقابلہ عدلیہ، کون جیتے گا؟ ایک اہم آرٹیکل

اشتہار

حیرت انگیز

واشنگٹن: امریکی صدر ٹرمپ اور عدلیہ کے درمیان خلیج بڑھنے لگی ہے، ایک سروے کے مطابق حکومت کے مقابلے میں عدلیہ زیادہ مضبوط ہے۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈسٹرکٹ سطح کے کورٹس صدارتی احکامات کو چیلنج کرنے لگے ہیں، اور اب تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 15 احکامات کو روکا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ایک سابق وفاقی جج جے مائیکل لوٹگ کا استدلال ہے کہ عدلیہ پر صدر ٹرمپ کے بڑھتے ہوئے حملوں سے آئینی جمہوریت کو خطرہ ہے، اور بالآخر عدالتوں کی طرف سے ان کی سرزنش کی جائے گی۔

تاہم دوسری طرف ملک بدری کی پروازوں کو اڑان بھرنے سے روکنے کا وفاقی جج کا حکم ناکام ہو گیا ہے، جس پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ عدلیہ کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔


ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد استعفیٰ دینے والی اٹارنی جنرل کی پراسرار موت


ٹرمپ انتظامیہ نے 238 وینزویلا اور 23 ایل سلواڈور گینگ کے ارکان کے 2 طیاروں کو فیڈرل ڈسٹرکٹ جج جیمز بوسبرگ کے حکم کے باوجود بیرون ملک اترنے کی اجازت دی، وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔

کیرولین نے یہ اعلان کیا کہ ’’کسی ایک شہر میں کوئی ایک جج طیارے کی نقل و حرکت روکنے کی ہدایت نہیں دے سکتا، ایسا طیارہ جو غیر ملکی اجنبی دہشت گردوں سے بھرا ہوا تھا، اور جنھیں امریکی سرزمین سے جسمانی طور پر نکال دیا گیا تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق آئینی بحران اور ٹرمپی بادشاہت کے تنازعے کے باوجود، صدور کی آئینی ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ ہمیشہ تمام عدالتی احکامات پر عمل کریں، صدور کو کچھ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ عدالتی حکم کو ماننے سے انکار کر دیں، تاہم اس اختیار کا استعمال عمومی طور پر نہیں کیا جاتا۔

وفاقی اپیل کورٹ کے سابق جج جے مائیکل لوٹگ نے خبردار کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ صدارت حاصل کرنے کے بعد قانون کی حکمرانی، قانونی پیشے اور عدالتوں کے خلاف اپنی دیرینہ دشمنی کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے اور اس میں شدت پیدا کر دی ہے، کیوں کہ ٹرمپ نظام انصاف کو اپنے خلاف استعمال ہونے والے ایک متعصبانہ آلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ٹرمپ نے ججوں کے مواخذے کی دھمکیاں بھی دی ہیں، جیسا کہ انھوں نے وینزویلا کے 200 سے زیادہ تارکین وطن کی ملک بدری کو روکنے کے لیے جج جیمز ای بوسبرگ کے مواخذے کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف عدلیہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ عدالتی اختیار کو زیر کرنے کی اپنی کوششوں کو جاری رکھیں تو سپریم کورٹ اور امریکی عوام کو آئینی حکمرانی کے دفاع کے لیے قدم بڑھانا چاہیے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتی حکم کا احترام کرنے سے انکار ٹرمپ کی سیاسی بددیانتی سمجھی جائے گی، اور عدالتوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے صدر ٹرمپ کا سیاسی سرمایہ ضائع ہونے کا بھرپور خدشہ ہے، یہاں تک کہ ان کے حلیف بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں