انقرہ : ترکیہ میں صدر طیب اردوان کے اہم حریف کی گرفتاری سے شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کرگئے، اب تک سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا جن میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔
ترک پولیس نے صدر رجب طیب اردوان کے حریف اور استنبول کے سابق میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کے دوران 1400 افراد کو حراست میں لے لیا گرفتار شدگان میں کئی صحافی بھی شامل ہیں۔
عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 6روز سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران اب تک 1400سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا، مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے10صحافی بھی گرفتار کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے اپنے صحافی کی گرفتاری پر شدید مذمت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اے ایف پی نے ترکیہ حکام سے اپنے صحافی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکیہ حکام نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) انتظامیہ سے حکومت مخالف اکاؤنٹس بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے صدرترکیہ اردوان نے کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کو پُرتشدد تحریک قرار دیا۔
صدر طیب اردون نے کہا کہ پولیس افسران کو زخمی اور املاک کو نقصان پہنچنے پر سی ایچ پی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، ریپبلکن پیپلز پارٹی لوگوں کو اکسانا بند کرے، کسی کو بھی اقتصادی کامیابیوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
واضح رہے کہ طیب اردوان کے حریف کی گرفتاری کے بعد سے احتجاج کا سلسلہ استنبول سے ترکی کے 55 سے زائد صوبوں تک پھیل چکا ہے، جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
53سالہ امام اوغلو کو ترکی کا واحد سیاست دان سمجھا جاتا ہے جو انتخابات میں اردوان کو شکست دے سکتے ہیں۔ ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام اور اردوان کے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
استنبول کے سابق میئر اکرم امام اوغلو پر کرپشن اور دہشت گرد تنظیم کی معاونت کے الزامات ہیں انہیں صدارتی دوڑ کیلئے اپوزیشن امیدوار نامزد کیے جانے کے روز ہی گرفتار کیا گیا تھا۔