اتوار, ستمبر 29, 2024
اشتہار

امید فاضلی: ‘خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے…’

اشتہار

حیرت انگیز

اردو زبان کے ممتاز شاعر امید فاضلی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔ ان کا مشہور شعر ہے۔

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

امید فاضلی 1952ء میں بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ ان کا تعلق ڈبائی سے تھا جو متحدہ ہندوستان کے ضلع بلند شہر کا حصّہ تھا۔ 17 نومبر 1923ء کو پیدا ہونے والے امید فاضلی کا خاندانی نام ارشاد احمد فاضلی تھا۔ اردو ادب اور شاعری کے میدان میں ان کی پہچان امید فاضلی کے نام سے ہوئی۔ آج امید فاضلی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

- Advertisement -

امید فاضلی نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ کے مدارس سے مکمل کی اور اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے اور پاکستان آنے کے بعد اسی محکمے میں ملازمت اختیار کی۔

امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو شاعر اور مرثیہ نگار تھے۔ انھوں‌ نے بطور شاعر طبع آزمائی کا سلسلہ 15 برس کی عمر میں شروع کیا تھا اور پہلے شکیل بدایونی اور پھر استاد شاعر نوح ناروی سے شرفِ تلمّذ حاصل رہا۔ ابتداً وہ امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ بعد میں امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔ امید فاضلی کی شہرت کا سفر تو غزل گو شاعر کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن ان کی مذہبی شاعری ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوئی تو ملک گیر شہرت ان کے حصّے میں آئی۔ امید فاضلی فنِ شاعری میں غزل اور نظم کے علاوہ سلام، نوحہ اور گیت نگاری میں بھی مشہور ہوئے۔

امید فاضلی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے شایع ہوا تھا۔ اس کتاب کو 1979ء میں بہترین شعری مجموعے کے لیے آدم جی انعام دیا گیا۔ امید فاضلی کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا اور تب و تابِ جاودانہ کے نام سے جب کہ حمد اور نعتیہ شاعری کی کتاب میرے آقا، منقبت کا مجموعہ مناقب کے نام سے منظرِ‌عام پر آیا۔ امید فاضلی نے قومی نغمات اور ملّی شاعری کو بھی پاکستان زندہ باد کے عنوان سے شایع کروایا۔ ان کے نعتیہ کلام پر مشتمل مجموعہ کو بھی رائٹرز گلڈ نے انعام دیا تھا۔

ممتاز شاعر امید فاضلی کا انتقال 2005ء میں 28 اور29 ستمبر کی درمیانی شب ہوا تھا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

امید فاضلی کا ایک خوب صورت شعر دیکھیے۔

یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں