افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھے سال تک کی عمر کے بچّوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔
اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے۔ چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔
جدھر دیکھیے دیوانِ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے، لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقیدِ غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغُ النّظر اور اور ارتقاء پذیر سماج کے لیے یہ بات باعثِ تشویش ہے۔
آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اور اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟
یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھے صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلّہ” مرتب ہو گیا۔ مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔
اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقّادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔
بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل ازکارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے، اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟
یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورتِ حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بے حد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناساز گار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقّی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہنچ جائیں گے۔
ماہناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کر مرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔
ادبی رسائل کو چاہیے کہ وہ اس ماحول سے پوری طرح توانائی حاصل کریں۔ محنت سے کام لیں اور ادبی و علمی افادیت کو ملحوظ رکھیں اور اس خیال کو ترک کر دیں کہ ادبی رسائل کو پڑھا نہیں جاتا۔ پڑھا جاتا ہے۔ اگر سلیقے سے پڑھایا جائے۔ ہم جن مضامین کو ادبی سمجھ کر چھاپتے رہے ہیں، انہیں بمشکل ہی ادبی کہا جا سکتا ہے، مثلاً: "مومن کا عشق” یا "غالب کا سماجی شعور۔”
چلیے، آپ انہیں ادبی کہہ لیجیے، لیکن آخر کب تک؟ اب آپ غالب کے سماجی شعور کا عرفان عطا کر کے کوئی ادبی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے خود سماجی شعور پیدا کرنا ہوگا اور ادبی ملائیت اور دقیانوسیت کو ترک کر کے ماہ ناموں کو سائنسی حقیقت پسندی، وسیعُ النّظری، مسائل شناسی، معاشرہ آفرینی اور اجتہادی و اختراعی اولوالعزمی کا نمائندہ بنانا ہوگا۔ بہ صورتِ دیگر اردو کی ادبی صحافت کے لیے اب کوئی گنجائش باقی نہیں۔
(اردو کے رسائل اور مسائل از جون ایلیا، شایع شدہ ماہ نامہ "انشاء” دسمبر 1959)