تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے (کہانی)

بہت پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں میں مراد نامی نوجوان اپنے بال بچّوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا گھر کچّا بھی تھا اور چھوٹا بھی، لیکن مراد مطمئن تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔

اس نوجوان کے زیادہ تر رشتہ دار اور عزیز و اقارب قریبی دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں‌ میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے گاؤں سے باہر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کی مزاج پرسی کے کے ارادے گھر سے نکلا جو خاصی دور ایک مقام پر رہتے تھے۔ مراد صبح سویرے گھر سے چل پڑا تاکہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا اور گزر گاہ خطرناک تھی۔ اس راستے پر جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔ مراد گھر سے دوپہر کا کھانا اور ضروری سامان ساتھ لیے منزل کی طرف چل پڑا۔

جب وہ جنگل کے قریب تھا تو اچانک مشرق کی طرف سے اس نے گرد کا طوفان اور آندھی آتی دیکھی۔ مراد نے پناہ گاہ کی تلاش میں‌ نظر دوڑائی۔ خوش قسمتی سے قریب ہی اسے ایک جھونپڑی نظر آگئی۔ اس نے جھونپڑی کی طرف قدم بڑھائے اور تقریباً دوڑتا ہوا جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا۔ اس اثناء میں آندھی جو بڑی زور آور تھی، کئی درختوں کو ہلاتی اور مختلف ہلکی اشیاء کو اڑاتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔

مراد کو جھونپڑی میں داخل ہونے سے کسی نے نہ روکا۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے چھے نوجوان پناہ لیے ہوئے تھے۔ دعا سلام کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی کی گرج چمک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جب بجلی چمکتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اسی جھونپڑی کی چھت پر پڑی ہے۔ اندر جتنے لوگ تھے وہ بجلی کی کڑک سن کر خوف ذدہ ہو جاتے۔ وہ آفت ٹلنے کے لیے دعائیں‌ کرنے لگے اور اپنی اپنی جان کی امان اللہ سے طلب کرنے لگے۔

جب بجلی بار بار جھونپڑی کی طرف آنے لگی تو سب کو یقین ہو گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اس ایک کی وجہ سے سب کے سب موت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جھونپڑی میں پہلے سے موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب مرنے کے بجائے یہ کریں‌ کہ ہر ایک باری باری سامنے کچھ فاصلے پر موجود درخت کو ہاتھ لگا کر آئے۔ ان کو نجانے کیوں یہ یقین ہوچلا تھا کہ جس کی موت آنی ہو گی، باہر نکلنے پر بجلی اس پر ضرور گرے گی۔

جھونپڑی میں موجود ایک شخص پہلے نکلا اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گیا۔ بجلی کڑکی مگر وہ شخص زندہ سلامت جھونپڑی میں واپس آ گیا۔ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا شخص حتّیٰ کہ وہ چھے کے چھے اشخاص درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اور بجلی کڑکتی رہی، مگر ان میں‌ کوئی نشانہ نہیں‌ بنا تھا۔

اب آخری شخص مراد تھا جسے ان سب نے جاکر درخت کو ہاتھ لگانے کے لیے کہا۔ مراد نجانے کیوں گھبرا گیا۔ اس نے پناہ لیے ہوئے تمام لوگوں کی منت سماجت کرنی شروع کر دی اور کہا کہ شاید وہ ان سب کی وجہ سے بچا ہوا ہے، لہٰذا اسے باہر نہ جانے کو کہا جائے۔ مگر سب بضد تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بجلی جس زور سے کڑک رہی ہے، وہ یقیناً‌ کسی ایک کو نوالہ بنانا چاہتی ہے، ہم سب نے اپنی باری پوری کی ہے، ہم مرنا نہیں چاہتے۔ اب تمہاری باری ہے جاؤ اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاؤ۔ اگر تمھاری زندگی ہوگی تو تم لوٹ آؤ گے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور باہر دھکیل دیا۔

مراد طوفانی بارش اور گرج چمک میں‌ درخت کی طرف بھاگا تاکہ جلدی سے اسے ہاتھ لگا کر واپس آ جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ جونہی وہ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچا، اچانک بجلی چمکی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ مراد کے اوسان اس آواز کو سنتے ہی خطا ہوگئے، لیکن لمحوں میں‌ جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو جھونپڑی جل گئی تھی۔ بجلی اس جھونپڑی پر گری تھی جہاں وہ چھے افراد موجود تھے جنھوں‌ نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ وہ سب کے سب لقمۂ اجل بن چکے تھے۔

Comments

- Advertisement -