تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بالا دست

مدت بعد وہ وطن واپس آیا تھا جہاں سے اس کی بہت ساری تلخ و شیریں یادیں وابستہ تھیں۔ جاتے وقت اس نے عہد کیا تھا کہ اَب یہاں لوٹ کر کبھی نہ آئے گا۔ لیکن نہ جانے وطن کی مٹی کی کشش تھی یا اپنوں کی محبت کہ بیس سال بعد وہ پھر یہاں کھڑا تھا۔

جب وہ اپنے قصبہ کی حدود میں داخل ہوا تو اسے ایسا لگا کہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے۔ وہی کچی پکی سٹرکیں، وہی لہلاتے کھیت، وہی پگڈنڈیاں اور آس پاس چرتی ہوئی گائے بکریاں۔ راستے میں پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گانو، جن میں چھوٹے چھوٹے کچے مکان، جن کی دیوار پر اوپلے تھوپے ہوئے۔ گوبر مٹی سے لیپا ہوا صحن جہاں مرغیاں چگ رہی تھیں۔ چھوٹی بڑی بیٹرھیاں، بڑے بڑے پیپل اور برگد کے پیڑ جن کی چھاؤں میں مزدور کندھوں پر انگوچھا رکھے سستا رہے تھے۔ وہ بڑے والہانہ پن سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اسے ان نظاروں سے بڑی انسیت تھی۔

اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا ابتدائی حصہ اسی ماحول میں گزرا تھا۔لیکن جب اس نے حویلی کے احاطہ میں قدم رکھا تو ایک لمحہ کے لیے ٹھٹھک گیا۔ کہیں وہ غلط جگہ پر تو نہیں آ گیا۔ کیا یہ وہی حویلی ہے جو دیکھنے والوں کو دور ہی سے اپنی عظمت اور برتری کا احساس دلاتی تھی۔ جس کی چہار دیواریاں اور ڈیوڑھیاں کس قدر شاندار تھیں اور اب تو یہ تقریباً کھنڈر بن چکی تھیں۔ ستون مٹیالے ہو چکے تھے اور محراب کی جالیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ کر اپنا حسن کھو چکی تھیں۔ وہ چند منٹ کھڑا انتظار کرتا رہا کہ کسی طرف سے کوئی ملازم آئے گا اور اس کا سامان اٹھا کر لے جائے گا۔ لیکن کہیں کوئی ملازم نظر نہ آ رہا تھا۔ البتہ ہر عمر اور ہر قد و قامت کے چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے جو اپنے آپ سے بھی لا تعلق تھے۔ چاک گریباں اور ٹوٹی چپل میں ہی مست تھے۔

سامنے بر آمدہ اور دالان میں چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں پڑی تھیں۔ وہ انھی میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہونٹوں پر خود بخود یہ شعر آ گیا:

ہم ا پنے گھر میں آئے ہیں مگر انداز تو دیکھو
ہم اپنے آپ کو مانندِ مہماں لے کے آئے ہیں

پھر ماضی کے چند مناظر ذہن کے پردے پر ابھر آئے۔ وہی حویلی ہے، وہی دالان ہے۔ تخت پر فرش لگا ہے۔ چند مصاحب بیٹھے ہیں۔ ملازم حکم کی تعمیل کے لیے کھڑے ہیں۔ ابّا حقے کی نَے منہ میں دبائے خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔

منظر بدل گیا۔

حویلی کے احاطہ میں ایک ہجوم ہے۔ کوئی مجرم پکڑ کر لایا گیا ہے۔ اس کی سزا ابا کو تجویز کرنی ہے۔ بڑے غور و فکر کے بعد جو سزا سنائی گئی وہ بڑی ہی عجیب و غریب ہے۔ یہ نظارہ بڑا دلخراش اور عبرتناک ہے۔ اسے عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔ یہ سزا صر ف غریبوں، بے بسوں اور لاچاروں کے لیے ہی کیوں؟ جب سنگسار کرنے کی وحی نازل ہوئی تھی تو ایسی کوئی تخصیص عاید تو نہیں ہوئی تھی۔

منظر پھر بدل گیا۔

ابا شکار کر کے لوٹے ہیں۔ آج انھوں نے ہرن کا شکار کیا ہے۔ وہ اپنی کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔ داد دینے والوں کا جمگھٹا ہے۔ اندر باہر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ہرن کی کھال دیوان خانہ کی دیوار پر بطور یادگار سجا دی گئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے کارنامے پر فخر کر سکیں۔

ابھی وہ اس طلسم میں کھویا ہوا ہی تھا کہ کوئی شخص اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے نظر یں اٹھا کر دیکھا اور بھیا کہہ کر لپٹ گیا۔ یہ چھوٹے بھیا تھے۔ وہ اسے حویلی کے اندر لے گئے۔ بڑے بھیّا بستر علالت پر پڑے تھے۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے اور چلنے پھر نے سے معذور تھے۔ اس نے حسرت سے چاروں طرف دیکھا۔ حویلی کا ہر حصہ زبان حال سے اپنی کسمپرسی کی داستان بیان کر رہا تھا۔ نہ جانے کس جذبے کے زیر اثر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ یہ آنکھیں بھی عجیب ہیں۔ پل بھر میں سب کچھ عیاں کر دیتی ہیں۔ رات گزارنے کے لیے جو کمرہ اسے ملا تھا وہ امّاں کا کمرہ تھا۔ بالکل ویسا ہی۔ وہی پلنگ، وہی دروازے، وہی کھڑکیاں۔ البتہ یہ سب اپنے مکینوں کی طرح رنگ و روغن کھو چکے تھے۔ جگہ جگہ مکڑی کے جالے لٹک رہے تھے۔ چمگاڈروں نے روشن دان کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ اسی کمرے میں اس نے بارہا اماں کی کراہیں اور سسکیاں سنی تھیں۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایک دن اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔

”کیوں رو رہی ہیں اماں، سَر دکھ رہا ہے؟“ انھوں نے نفی میں سَر ہلایا۔

”تو پھر ڈر لگ رہا ہے؟“ اس کے معصوم ذہن میں یہی بات آئی۔ اماں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے قریب کر تے ہوئے سینے سے لگا لیا۔ اماں کے جسم کی حرارت اور ہاتھوں کا لمس اب بھی تازہ تھا۔ اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور سر جھٹک کر ماضی میں گم ہو گیا۔

ابا تو شاذ و نادر ہی اندر آتے تھے۔ ان کے لیے باہر کی دنیا زیادہ پرکشش تھی۔ ساری ساری رات محفلیں جمی رہتیں۔ دوست احباب سایہ کی طرح ساتھ لگے رہتے۔ اور اماں بیچاری عورت ذات تو ازل سے خود کو مظلوم اور مجبور سمجھتی آئی ہے۔ اپنے حق کے لیے اس نے احتجاج کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ اپنے ارمان، اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر سسکیوں اور سمجھوتوں میں بسر کر لیتی ہے۔ اماں بھی انھی میں سے ایک تھیں۔ نہ جانے کس مٹی کی بنی تھیں۔ حرف شکایت زبان پر کبھی نہ لاتیں۔

جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو قصبہ کے اسکول میں اس کا داخلہ کروا دیا گیا۔ دونوں بڑے بھائیوں کو پڑھنے لکھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ سارا دن آوارہ گردی میں گزارتے۔ آئے دن نازیبا حرکتیں کر تے رہتے۔ اماں ان کی بدتمیزیاں اور ناروا سلوک درگزر کر دیا کرتیں کہ آخر یہ بھی تو انھی کے بچے ہیں۔ کیا ہوا اگر وہ ان کے سگے نہیں ہیں۔ ایک دن ابا شکار پر گئے تو زندہ واپس نہ آئے ان کی لاش ہی آئی۔ ان کے گزرنے کے بعد دونوں بھائی اور بھی خود سر ہو گئے۔ من مانی کرنے لگے۔ اس کا کوئی کام انھیں گوارا نہ تھا۔ ہر کام میں رخنہ ڈالتے، لیکن اماں ڈھال بن کر ہر وار سے بچا لیتیں۔ ان کی مخالفت کے باوجود اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ ابھی زیر تعلیم ہی تھا کہ اماں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کی بے وقت کی جدائی نے اسے اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹا اور اماں کا خواب پورا کرنے میں لگ گیا۔

جب سر پر سایہ دار درخت نہ ہو، دھوپ کڑی اور گرم ہوا کے تھپیڑے ہوں تو انسان کیا کرے، کہاں جائے۔ اس نے ابھی کوئی فیصلہ نہ کیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔ کہاں رہنا ہے کہ اچانک ایک دن منشی جی اس کے پاس آئے اور کہنے لگے۔

”حضورآپ کے ساتھ تو بڑی حق تلفی کی گئی ہے۔ آپ کے بھائیوں نے ساری عمدہ زمینیں اپنے نام کر لی ہیں۔ بنجر اور بیکار آپ کے لیے چھوڑدی ہے۔ حویلی پر بھی دونوں نے اپنا نام چڑھا لیا ہے“۔

”تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔ وہ بیزاری سے بولا۔ اب یہ اس کی فطرت کا قصور تھا یا تعلیم کا کہ اسے لڑنا جھگڑنا بالکل پسند نہ تھا۔ اس نے بھائیوں سے کوئی سوال و جواب نہ کیا۔ بہت ہی خاموشی سے گھر چھوڑ دیا۔

اس واقعہ کو بیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ان بیس سالوں میں اس نے بے شمار دولت حاصل کی مگر گھر والوں کو اس کی خبر نہ تھی۔ وہ تو اسے مرا ہوا سمجھ کر آرام سے بیٹھے تھے اور اب اس کے اچانک آجانے سے حویلی میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ جتنی زبانیں تھیں اتنی ہی بولیاں۔ البتہ وہ اتنا ضرور سمجھ گئے تھے کہ اب وہ خاصا مالدار ہو چکا ہے اور شاید اپنا حصہ وصولنے آیا ہے تاکہ اس کے مال و دولت میں اور اضافہ ہو جائے۔وہ آپس میں باتیں کرتے۔

”اتنے دنوں بعد یہ ضرور اپنا حق وصول کرنے آیا ہے۔”

”بچا ہی کیا ہے، ساری زمینیں تو گروی پڑی ہیں۔ اگر یہ اپنا حصہ لے لے گا تو ہم کھائیں گے کیا؟“

”میری مانو تو بہلا پھسلا کر جلد اسے چلتا کر دو۔“

سب اپنی اپنی رائے پیش کر رہے تھے اور وہ ان باتوں سے بے خبر ماضی کی بھول بھلیّوں میں گم تھا۔

دوسری صبح سب اکھٹے بیٹھے تھے۔ چھوٹے بھیّا نے بات شروع کی۔

”آج تمھیں یہاں دیکھ کر بتا نہیں سکتا کہ ہمیں کتنی خوشی ہو رہی ہے۔ میری رائے ہے کہ تم یہیں رہ جاؤ۔ حالاں کہ اب یہاں رہنا تمھارے لیے بہت مشکل ہوگا کیوں کہ جس عیش و آرام کے تم عادی ہو چکے ہو وہ یہاں مہیا نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی جہاں تک ہو سکے گا ہم تمھارے آرام کا خیال رکھیں گے اور تمھارا حق بھی تمھیں مل جائے گا۔“

وہ دھیرے سے مسکرایا اور جیب سے ایک بڑی رقم کا چیک نکال کر بڑھاتے ہوئے بولا۔

”آج میں کچھ لینے نہیں دینے آیا ہوں۔”

(یہ نوشابہ خاتون کا افسانہ ہے جن کا تعلق بھارت سے تھا)

Comments

- Advertisement -