تازہ ترین

مسلمان شعرا کے ہندو شاگرد

اردو کی قدیم ادبی روایات میں سب سے اہم مشاعروں کا رواج ہے۔

مشاعرے ہند ایرانی تہذیب کا وہ ورثہ ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو منتقل ہوا اور ہندوستان کی اپنی چیز بن کے رہ گیا۔ مشاعروں کا رواج اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات کا اوّلین مظہر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا مشاعرہ منعقد ہوا ہو جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو شریک نہ ہوئے ہوں۔ شعر و شاعری کی یہ مجلسیں ہر زمانے میں عام رہی ہیں۔ ان کے چند در چند رسوم و آداب مقرر تھے، جن کا احترام ہندو و مسلم دونوں کے لیے واجب سمجھا جاتا تھا۔

ایک دوسرے کے زانو بہ زانو بیٹھ کر ہندو و مسلم اپنا اپنا کلام سناتے تھے۔
مشاعروں کا انعقاد عموماً کسی صاحبِ حیثیت کے گھر پر ہوتا تھا۔ اردو کے قدیم مشاعروں کی تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ میزبان کبھی کبھی ہندو بھی ہوتے تھے۔ بعض اوقات مشاعروں کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ دونوں فرقوں کو ایک دوسرے سےقریب تر لایا جائے۔ ایسی ہی ایک کوشش لکھنؤ کا وہ مشاعرہ تھا جو ’’آئینۂ ہندوستان‘‘ کے نام سے مشتہر ہوا۔ یہ مشاعرہ ہری سرن داس کے دولت خانہ پر منعقد ہوا تھا۔ اس کے علاوہ منشی لچھمن پرشاد صدر اور رنگ بہاری لال سوسن کے ہاں لکھنؤ میں برسوں مشاعرے ہوتے رہے۔

دہلی میں ایسے مشاعرے امر ناتھ ساحر، پیارے لال رونق اور چندی پرشاد شیدا کے زیرِ اہتمام 1920ء تک ہوتے رہے۔ کنور بدری کرشن فروغ سکندر آباد کے رئیس ان مشاعروں کے بانی تھے۔

اس طرح مسلمانوں کے گھر ہندوؤں اور ہندوؤں کے گھر مسلمانوں کی نشستیں ہوا کرتی تھیں اور اس وقت کی سوسائٹی ان تعلقات میں کسی تفاوت کو روا نہ رکھتی تھی۔

استادی اور شاگردی کی روایت بھی اردو میں فارسی اثر سے آئی۔ ہر استاد کے بے شمار شاگرد ہوتے تھے جو ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، حتی کہ ادبی مناظروں میں اگر کوئی ایسی نوبت آتی تو اپنے ہم مذہبوں سے مقابلہ کرنے میں بھی عار نہیں سمجھتے تھے۔

یہاں اردو کے چند ان ہندو شاعروں کا ذکر بے جا نہ ہو گا جنھوں نے مسلمان شاعروں کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا۔ ذیل میں ہر استاد شاعر کے سامنے ان کے ہندو شاگردوں کے نام درج کیے جاتے ہیں:

مرزا جان جاناں مظہر…. کشن چند مجروح
خان آرزو…. ٹیک چند بہار اور آنند رام مخلص
میر تقی میر…. بندرا بن راقم، جسونت سنگھ دیوانہ، شیو کمار وفا اور منور لال صفا
شاہ حاتم…. خوش وقت رائے شاداں، اور مکند سنگھ فارغ
سودا…. لچھمی رام فدا
شاہ نصیر….خوب چند ذکا، منو لال پریشاں، رام پرشاد شاد، چنڈو لال شاداں، گنگا داس ضمیر، دھومی لال طرب، موتی لال طرب، رام سکھ عاشق، عزت سنگھ عیش، موہن لال منعم، گھنشام رائے عاصی، دولت رام عبرت، خیالی رام عیاش، مہتاب سنگھ غم، دولت سنگھ لطیف، مول چند منشی، مٹھن لال نامی، صاحب رام راقم، گوبند رائے نصرت اور مہاراج سنگھ عزیز، جس نے بعدِ وفاتِ شاہ نصیر، ان کے کلام کو جمع کیا تھا۔
میر درد…. نرائن داس بیخود، جھمن ناتھ جھمن، بال مکند حضور اور بھکاری لال عزیز۔
غالب…. دیبی دیال نامی، شوجی رام مونس، ہرگوپال تفتہ، لچھمی نرائن مفتوں اور بال مکند بے صبر۔
مومن…. منو لال شاد اور بشن پرشاد فرحت
ذوق…. بال مکند بے صبر، پیارے لال ظہیر، بہاری لال مشتاق، دولت رام شفق، کنور سین عزیز اور موہن لال موہن۔
امام بخش صہبائی….درگا پرشاد نادر
آتش…. جیا لال بہادر، کنور گوپال سہائے صور، دیا شنکر نسیم اور جگل کشور ظہور۔
مصحفی…. کانجی مل صبا، بینی پرشاد ظریف، ٹیکا رام تسلی، کنور سین مصحفی اور موجی رام موجی۔
میر حسن…. گنگا سنگھ قادر۔
جرأت….منگل سین الفت، گنگا پرشاد رند اور اجودھیا پرشاد حسرت۔
میر سوز…. موتی لال حیف
محمد حسین آزاد…. کشن لال طالب اور کیسرا سنگھ جہانگیر
امیر مینائی…. جوالا پرشاد برق
عزیز لکھنوی…. جگت موہن لال رواں، شیر سنگھ شمیم
تاجور نجیب آبادی…. کیشو داس عاقل

اسی طرح کئی مسلمان شاعر بھی ہندو استادوں کے خوشہ چین رہے۔ جعفر علی حسرت، جو قلندر بخش جرأت کے استاد تھے، رائے سرب سنگھ دیوانہ کے شاگرد تھے۔ میاں بسمل، میاں مشکل، میر تراب علی عادل اور میر حیدر علی خزاں کا شمار تلامذۂ بختاور سنگھ غافل میں ہوتا ہے۔ کھیم نرائن رند، مولوی حفیظ الدین شہید کے اور بنسی دھرہمت، باقر علی کے استاد تھے۔

(گوپی چند نارنگ کے مضمون سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -