تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

ایک تھا الٹا نگر۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کی ہر بات اُلٹی تھی۔

وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے، بائیں طرف چلتے اور ہمیشہ بائیں کروٹ سوتے تھے۔ وہ لیٹ کر کھانا کھاتے اور بیٹھ کر سوتے تھے۔ لحاف بچھاتے اور گدّے اوڑھے تھے۔ منہ پہلے دھوتے اور ہاتھ بعد میں، روٹی پہلے کھاتے اور سالن بعد میں۔

درزی الٹے کپڑے سیتے تھے۔ ہر شخص جوتے خریدنا ضروری سمجھتا تھا مگر جب چلتا تو جوتوں کو سَر پر رکھ لیتا۔ حکیم زکام کے مریض کو قبض کی دوا دیتے اور قبض کے مریض کو ایسی دوا دیتے کہ اُسے زکام ہو جاتا۔ اگر انہیں کہیں جلدی جانا ہوتا تو بہت آہستہ چلتے اور جہاں جلدی نہ پہنچنا ہوتا وہاں اتنی تیزی سے جاتے جیسے کہیں آگ لگی ہو۔ کسی کا بیاہ ہوتا تو سب مل کر اِس طرح روتے کہ دل سہم جاتا اور جب کوئی مر جاتا تو اتنا ہنستے اتنا ہنستے کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ بچّے سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے اور بوڑھے پڑھنے کے لیے بلا ناغہ اسکول جاتے تھے۔

غرض کہ اس شہر کا باوا آدم ہی نرالا تھا۔ لیکن اپنی الٹی پلٹی باتوں کے باوجود بھی اُلٹے نگر کے لوگ بڑے سکھ چین سے رہتے تھے۔ ان کے ہاں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا تھا۔ کوتوالی کے سپاہی سارا دن لمبی تان کر سوئے رہتے۔

الٹے نگر میں کوئی اجنبی آتا تو ہر شخص اسے اپنے ہاں ٹھہرانے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ شخص کسی کے ہاں مہمان ٹھہرنا پسند نہ کرتا تو وہ اُسے غلط راستہ بتا دیتے اور وہ اجنبی سارے شہر میں پاگلوں کی طرح گھومتا پھرتا۔

اس شہر کی اُلٹی پُلٹی باتوں کی خبر بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اُسے بڑا غصّہ آیا۔ اس نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ فوراً الٹا نگر جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔ وزیر دوسرے ہی دن اُلٹا نگر جا پہنچا۔

’’خُدا ہی بہتر جانے یہ کس قسم کا شہر ہے۔ مجھے تو ان لوگوں سے خوف آتا ہے۔‘‘ وزیر نے اسٹیشن سے باہر نکل کر چاروں طرف نگاہ دوڑا کر کہا۔

ایک سڑک پر بورڈ لگا تھا۔ ’’یہ سڑک جنوب کی طرف جاتی ہے۔‘‘

وزیر بولا۔ ’’لا حول ولا قوة! ارے یہ حماقت تو دیکھو ذرا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرف مغرب ہے۔ مگر ان احمقوں نے الٹا بورڈ لگا رکھا ہے۔‘‘

’’جناب! یہ الٹا نگر یوں ہی تو مشہور نہیں ہو گیا۔‘‘ ایک افسر نے کہا۔ وہ آگے بڑھے تو ایک آدمی ملا۔ وزیر نے اُس سے کہا۔ ’’بھئی! ہمیں کوتوالی جانا ہے۔ کون سا راستہ جاتا ہے اُدھر؟‘‘

’’کوتوالی جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ میرے گھر مہمان کیوں نہیں رہ جاتے؟‘‘ اُس نے جواب دیا۔

اِتنے میں اور بھی بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ہر شخص اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہریں مگر جب وہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا۔ ’’اچھا! آپ کی مرضی! ایسا کیجیے کہ ناک کی سیدھ میں چلے جائیے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر کوتوالی ہے۔‘‘

وہ ان کا شکریہ ادا کر کے اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگے۔ جب وہ سڑک کے آخر میں پہنچے تو اُنہیں بھنگیوں کے گھر نظر آئے۔

’’لا حول و لا قوّۃ! بھئی یہ لوگ تو اوّل درجے کے شیطان ہیں۔ لو ہمیں بھنگیوں کے گھر بھیج دیا ہے۔ حد ہو گئی۔‘‘ وزیر نے غصّے سے کہا۔

وہ لوگ سارا دن شہر میں مارے مارے پھرے اور کہیں شام کے وقت بڑی مشکلوں سے کوتوالی پہنچے۔ یہ لوگ کئی دن تک وہاں بیٹھے سر پٹختے رہے مگر الٹے نگر کے لوگوں نے اُن کی ایک نہ سنی۔ ان کی ہر بات کا مذاق اُڑایا۔ ان کے بنائے ہوئے کسی قانون کو نہیں مانا۔ ان کی تدبیریں سب اکارت گئیں۔

’’ہم کس پاگل خانے میں آ گئے ہیں۔ اِن لوگوں کو تو گولی مار دینی چاہیے۔ ان کی کوئی بھی تو کل سیدھی نہیں ہے۔‘‘ ایک افسر نے تنگ آ کر کہا۔

’’چند دن اور کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ سیدھی راہ پر آ جائیں۔‘‘ وزیر بولا۔
ایک دن دو ڈاکو سرکاری خزانہ لوٹ کر اُلٹا نگر چلے آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس شہر کے لوگ بے وقوف ہیں اِس لیے وہ یہاں آرام سے بیٹھ کر موج اڑائیں گے۔ جونہی یہ شامت کے مارے الٹے نگر میں داخل ہوئے، لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر شخص انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے کے لیے اصرار کرنے لگا۔

’’اجی صاحب! آپ میرے غریب خانے پر چلیے۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔ چُپ رہو تم اتنے بڑے آدمیوں کی میزبانی کے اہل نہیں ہو۔ حضور! آپ بندے کے گھر چلیے۔ وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

’’تم کیا کرایہ لو گے؟‘‘ ایک ڈاکو نے پوچھا۔

’’آپ ہماری توہین کر رہے ہیں صاحب۔ ہم مہمانوں سے کرایہ نہیں لیا کرتے۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔

’’پھر تو بہت اچھّی بات ہے۔ ہم تمہارے ہی گھر چلیں گے۔‘‘ ڈاکوؤں نے کہا۔

’’نہیں نہیں۔ میں اتنی دور سے آپ کے پیچھے آیا ہوں۔ آپ کو میرے گھر چلنا ہو گا۔‘‘ ایک اور آدمی نے کہا۔

’’بکواس بند کرو۔ یہ میرے مہمان ہیں۔ میں ان کے لیے درجنوں مرغے ذبح کروا سکتا ہوں۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا اور دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر اپنے گھر کی طرف گھسیٹنے لگا۔

جب دوسروں نے دیکھا کہ یہ تو اُنہیں ہانک لے چلا ہے تو اُنہوں نے دوسروں کو بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اپنے اپنے گھر کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس کھینچا تانی میں ڈاکوؤں کے کپڑے تار تار ہو گئے۔

اتّفاق سے کوتوال کا اس طرف سے گزر ہوا۔ اس نے مجمع لگا دیکھا تو آگے آیا اور بڑی مُشکل سے ڈاکوؤں کو لوگوں کے پنجے سے چھڑایا۔

’’کیا بات ہے۔ تم انہیں کیوں مار رہے ہو؟‘‘ کوتوال نے پُوچھا۔

’’مار کون رہا ہے جناب! ہم تو انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانا چاہتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

’’اوہو! تو یہ جھگڑا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اِن دونوں کو میں اپنے ہاں مہمان رکھوں گا۔ تم سب اپنی اپنی راہ لگو۔‘‘ کوتوال نے بڑے رُعب سے انہیں حُکم دیا اور خود اُن دونوں کو اپنے گھر لے آیا۔

لوگوں سے جب کچھ اور نہ بن پڑا تو اُنہوں نے ڈاکوؤں کی موٹر کو خوب صاف کیا اور اُس کا پٹرول نکال کر اس میں دودھ بھر دیا۔

دوسرے دن صبح کو ریڈیو پر سرکاری خزانہ لوٹے جانے کی خبر سُنائی گئی اور ڈاکوؤں کا حلیہ بھی بتایا گیا۔ الٹے نگر کے لوگوں نے چوروں کے حلیے پر غور کیا تو انہیں یقین ہو گیا کہ کوتوال کے مہمان ہی وہ ڈاکو ہیں۔ وہ غصّے سے لال پیلے ہو کر کوتوال کے گھر کی طرف چلے۔

’’میرے دروازے کے سامنے کیوں بھیڑ لگا رکھی ہے تم نے؟‘‘ کوتوال نے دروازہ کھول کر پوچھا۔

’’جناب! آپ کے دونوں مہمان ڈاکو ہیں۔ سرکاری خزانہ لوٹ کر یہاں لائے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

’’ایں! واقعی؟‘‘ کوتوال نے حیران ہو کر کہا اور چوروں کو پکڑنے کے لیے اندر بھاگا مگر چور پہلے ہی پچھلے دروازے سے رفو چکر ہو چکے تھے۔

’’پکڑو پکڑو۔ جانے نہ پائیں۔ ابھی یہیں کہیں ہوں گے۔‘‘ کوتوال نے کہا۔

لوگ بھاگتے ہوئے چوک میں پہنچے۔ یہاں ڈاکوؤں کی کار کھڑی تھی اور وُہ کار میں بیٹھے انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر کار میں پٹرول کی جگہ دودھ بھرا ہوا تھا۔ وہ چلتی کیسے۔ ڈاکو لوگوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر موٹر چھوڑ چھاڑ سرپٹ بھاگے مگر چند ہی منٹوں میں گرفتار کر لیے گئے۔

جب لوگ ڈاکوؤں کو لے کر کوتوالی پہنچے تو وزیر اپنے بنائے ہوئے قانون کوتوال کو سمجھا رہا تھا۔

’’جناب! ہمیں آپ کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے چوروں کو خود پکڑ سکتے ہیں۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔

’’بھئی! تُم اپنی الٹی پُلٹی حرکتوں سے اپنا کام نکال ہی لیتے ہو۔‘‘ وزیر نے ہنس کر کہا۔

’’میرا خیال ہے کہ اِنہیں اِن کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ایک افسر بولا۔ ’’یہ جانیں اور ان کا کام۔ اگر ہم کچھ دن اور یہاں رہے تو ہم بھی ان کی طرح الٹے پلٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اور وہ سب اسی دن الٹے نگر سے چلے گئے۔

(مصنّف:‌ جبّار توقیر)

Comments

- Advertisement -