اشتہار

چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

دانیال نے چوں کہ پمفلٹ بہت اچھی طرح پڑھ لیا تھا اس لیے اسے یہ ساری معلومات یاد تھیں۔ جبران کو اس کی بات پر یقینی نہیں آیا اور بولا: ’’قزاق اور آئس لینڈ میں؟‘‘

- Advertisement -

’’جی ہاں، یہ 1627 کا ایک سچا قصہ ہے۔ قزاقوں نے انھیں افریقہ لے جا کر غلاموں کی طرح فروخت کر دیا تھا۔ انھوں نے بہت سارے مردوں کو جان سے بھی مار دیا تھا۔‘‘

’’کک … کیا اب بھی قزاق یہاں آ سکتے ہیں؟‘‘ جبران گھبرا گیا۔

فیونا ہنس پڑی: ’’بے وقوف، وہ چار سو سال پرانی بات ہے، اب یہاں بحری قزاق نہیں ہیں۔‘‘

تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد آخر کار کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی۔ کشتی پانی میں ڈول رہی تھی۔ وہ تینوں لڑکھڑاتے ہوئے ساحل پر اترے۔ جبران کو چکر آنے لگے تھے اور وہ آگے پیچھے ڈول رہا تھا جیسے ابھی تک کشتی ہی میں سوار ہو۔

’’پریشان مت ہو، کچھ دیر میں تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘ فیونا نے اسے تسلی دی۔ اس کی اور دانیال کی طبیعت اب درست تھی، ان دونوں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ فیونا نے کہا: ’’سب سے پہلے کھانا!‘‘

’’میرا جی نہیں کر رہا ہے، ہاں تم دونوں جا کر کھا سکتے ہو۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا اسے سمجھانے لگی کہ کھانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ آگے کا کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو، اور دن کس طرح گزرے، اور کھانے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔ تینوں ایک کیفے کی طرف بڑھے اور وہاں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر فیونا کا منھ بن گیا: ’’لو، یہاں تو کیلے اور پپرونی پیزا دستیاب ہیں۔ یہاں بھی وہی ڈشیں ہیں۔ دودھ میں پفن اور گھوڑے کا گوشت، کچی مچھلیاں … اوع … یہ کون کھائے گا۔‘‘

’’مت کرو ان چیزوں کا ذکر۔‘‘ جبران نے سر پکڑ لیا۔ ’’میں تو یہاں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ کھانوں کی بو سے میری طبیعت مزید خراب ہو ری ہے۔ میں باہر جا کر تم دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

دونوں نے مجبوراً کیلے اور پپرونی کے پیزا کا آرڈر دے دیا۔ ڈشیں آگئیں تو جلدی جلدی کھا کر اور باہر نکل آئے۔

’’کچھ بہتر محسوس کر رہے ہو اب؟ چہرے کی رونق تو لوٹ آئی ہے۔‘‘ فیونا نے پوچھا۔ جبران نے مسکرا کر سر ہلایا۔ دانیال نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اچھا، اب کیا کریں، کھانا بھی کھا چکے۔ یہاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ذرا سوچو، اگر کوئی شخص 1200 میں یہاں آ کر قیمتی پتھر چھپاتا ہے، تو اب تک تو وہ اس لاوے میں کہیں دفن ہو چکا ہوگا۔‘‘

فیونا بولی: ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اسے کچھ زیادہ دیر تک تلاش کرنا پڑے گا، اسے ڈھونڈ نکالنا کچھ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

’’لیکن ہم ان پتھریلی پہاڑیوں میں قیمتی پتھر کو کہاں کہاں تلاش کریں گے؟‘‘ جبران بولا۔

’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مرجان ہمیں ایک لاوا غار میں ملے گا۔‘‘

’’اور اب یہ لاوا غار کیا شے ہے؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔

فیونا بتانے لگی: ’’لاوا غار اس وقت وجود میں آتا ہے جب اوپر کی سطح کا گرم بہتا لاوا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، تاہم اس کے نیچے گرم لاوا بہتا رہتا ہے اور اس طرح ایک ٹیوب بن جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لاوا سخت ہونے لگتا ہے اور ایک غار کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ مرجان کسی ٹنوں لاوے کے نیچے نہیں چھپا ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی غار میں ہے، یہ جزیرہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ چلو اسے ڈھونڈنے کا آغاز کرتے ہیں۔ ہاں، ایک بات یاد رکھنا کہ لاوا بہت کاٹ دار ہوتا ہے، اگر ہم نے احتیاط نہیں برتی تو یہ ہمیں لمحوں میں کئی ٹکڑوں میں بدل دے گا۔‘‘

قیمتی پتھر کی جستجو میں تینوں لاوے کی زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ دانیال بولا: ’’یہ زمین ناہموار ہے لیکن اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

وہاں جگہ جگہ پتھر پڑے ہوئے تھے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گھاس کی چادریں تنی ہوئی تھیں۔ جبران کو کچھ نظر آیا تو اس نے کہا: ’’ارے وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی چیز حرکت کر رہی تھی۔ جبران نے کہا: ’’اوہ یہ تو چٹان ہے جو حرکت کر رہی ہے۔‘‘

(جاری ہے)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں