تازہ ترین

آئی ایم ایف کا پاکستان کو سخت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کا مشورہ

ریاض: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سخت...

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

احسان دانش کو زندگی کی تلخیوں، مصائب و آلام اور معاش کے لیے سخت دوڑ دھوپ نے جو کچھ سکھایا، وہ ان کی فکر اور تخیّل میں ڈھل کر بطور شاعر ان کی وجہِ شہرت بنا۔ احسان دانش شاعرِ مزدور کہلائے۔ لیکن اردو زبان و ادب میں انھیں ایک ماہرِ لسانیات، نثر نگار اور لغت نویس کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج احسان دانش کا یومِ وفات ہے۔

احسان دانش نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ انھیں مزدوری اور یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑا، کبھی وہ مالی بنے اور کبھی چپڑاسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے انھیں جو بھی کام ملا کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔ انھوں نے محنت سے جی نہ چرایا اور ہر قسم کا کام کرنا قبول کیا لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ احسان دانش 1982ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

اردو کے صاحبِ‌ اسلوب ادیب اور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

"احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔”

احسان دانش کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انشا پرداز بھی تھے اور زبان و بیان پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔ انھوں نے لغت کے علاوہ اردو کے مترادفات اور اردو الفاظ سے متعلق کتب تصنیف کیں۔ احسان دانش کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا اور بالخصوص ان کے انقلاب آفریں نغمات اور اشعار کو تحریر سے تقریر تک موقع کی مناسبت سے برتا گیا۔ انھوں نے عام آدمی اور مزدور کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ فطرت اور رومان پرور خیالات کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

احسان دانش نے کسی طرح مڈل پاس کرلیا لیکن آگے نہیں‌ پڑھ سکے۔ حالات نے انھیں کم عمری میں کمانے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ اس تنگی کے باوجود وہ دل کے بادشاہ تھے۔ حالات کی سختیوں کے باوجود ان کی طبیعت میں‌ شگفتگی اور شوخی برقرار رہی۔ ان سے متعلق مشہور ایک دل چسپ واقعہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم نے شہر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، اس میں شریک ہو کر ممنون فرمائیے۔

احسان نے دریافت کیا، ’’مشاہرہ کیا ہو گا؟‘‘

منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شرکت فرما کر اس ادنیٰ کو شکر گزاری کا موقع دیں۔‘‘

احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچّوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

احسان دانش کے اس جواب نے یقیناً منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

احسان دانش کا ایک شعر بہت مشہور ہے۔

یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

قاضی احسان الحق ان کا نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے، لیکن بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کر لی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ احسان کے والد کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ یوں احسان دانش نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور تعلیم بھی مڈل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ اپنی چپڑاسی کی نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں محنت مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ ان حالات کے باوجود احسان دانش کو علم حاصل کرنے اور مطالعہ کا شوق تھا اور انھوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انھیں کام نمٹانے کے بعد جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ جو بھی شعری صلاحیت ان میں پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔

شاعرِ‌ مزدور احسان دانش طبقاتی کشمکش سے بیزار تھے۔ انھوں نے مروجہ نظامِ حکومت اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری میں‌ مزدوروں کو متحد ہوجانے کی تلقین، برابری اور بھائی چارگی کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں شعر و ادب زندگی کا آئینہ رہا۔ فطرت سے انھیں پیار تھا اور رومان بھی ان کے اشعار میں بہت بے ساختہ ہے۔

ان کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر کتب میں ابلاغ دانش، تشریح غالب، آواز سے الفاظ تک، اردو مترادفات شامل ہیں جب کہ ان کی خودنوشت بھی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

احسان دانش کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
ایک بے جرم سزا ہو جیسے

احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے شاعرِ‌ مزدور کو ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز عطا کیے۔

Comments

- Advertisement -