مفتی صدر الدّین آزردہ غالب کے عہد کی ایک ممتاز و معزّز شخصیت تھے۔ وہ غالب کے نہایت قریبی دوست بھی تھے۔
ملک پر انگریزوں کے تسلّط سے پہلے وہ دہلی اور آس پاس کے علاقوں کے مفتی تھے اور برطانوی دورِ حکومت میں انھیں صدرُ الصدور کے عہدہ سے نوازا گیا، جو اس زمانے میں انگریزوں کی طرف سے کسی ہندوستانی کو دیا جانے والا سب سے بڑا عدالتی عہدہ تھا۔
اپنے سرکاری فرائض کے علاوہ مفتی صاحب درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اور ان کے نام وَر شاگردوں میں سر سیّد احمد خاں، یوسف علی خاں ناظم (نواب رامپور)، مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدّین، نواب صدیق حسن خان (بھوپال) اور مولانا فیضُ الحسن خان جیسے لوگ شامل تھے۔
آزردہ انگریزوں کی ملازمت کرتے ہوئے بھی انگریزوں کی صف میں شامل نہیں تھے بلکہ بہادر شاہ کے دربار سے منسلک رہنا پسند کرتے تھے۔
دوسری جانب انگریز اس بات سے واقف تھے کہ دہلی علم و ادب کا مرکز ہے، اس لیے یہاں کے بااثر علما و فضلا میں سے ہی انگریزی ملازمت کے لیے ’صدر امین‘ اور ’صدرُالصّدور‘ یعنی آج کی اصطلاح میں جج بنایا جائے تو زیادہ موزوں ثابت ہو گا۔ اس لیے دہلی میں مفتی صدرالدّین آزردہ کو عہدہ دیا گیا، لیکن وہ وقت بھی آیا جب ان کو جیل جانا پڑا۔
اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب ان تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ اپنے خطوط میں غالب نے اس وقت کے حالات کا احباب سے تذکرہ کیا ہے۔ جیل سے آزردہ کی رہائی کے بعد ان کی مالی حالت اور طرزِ زندگی کے بارے میں غالب نے حکیم سیّد احمد حسن مودودی کو ایک خط میں لکھا:
’’مولوی صدرُ الدّین صاحب بہت دن حوالات میں رہے۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا۔ روبکاریاں ہوئیں۔ آخر صاحبانِ کورٹ نے جاں بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف، جائیداد ضبط، ناچار خستہ و تباہ حال لاہور گئے۔ فنانشل کمشنر اور لفٹنٹ گورنر نے از راہِ ترحّم نصف جائیداد وا گزاشت کی۔ اب نصف جائیداد پر قابض ہیں۔ اپنی حویلی میں رہتے ہیں۔ کرایہ پر معاش کا مدار ہے۔ اگرچہ بہ آمدنی ان کے گزارے کو کافی ہے۔ کس واسطے کہ ایک آپ اور ایک بی بی۔ تیس چالیس روپے مہینہ کی آمدنی۔‘‘ (اردوئے معلّٰی)
(ہندوستان پر انگریزوں کے تسلّط اور غدر کے حوالے سے ایک تحقیقی مضمون سے چند پارے)