اتوار, ستمبر 29, 2024
اشتہار

استاد رساؔ: وہ شاعر جن کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت گالیاں‌ رہتی تھیں!

اشتہار

حیرت انگیز

ہر شہر اور قریہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو عام لوگوں سے مختلف اور یکتا شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور خصلتیں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور وہ ان کے محبوب بن جاتے ہیں۔ استاد رساؔ بھی ایسے ہی لوگوں میں ایک تھے۔

ان کی بنیادی شناخت تو شاعری تھی، لیکن شاعری کے سوا ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو وہ گالیاں تھیں جو پرانی دلّی میں آج بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ استاد رساؔ ایک قلندرانہ صفات کے حامل شاعر تھے، لیکن پرانی دلّی کے گلی کوچوں میں ان کا شہرہ شاعری سے زیادہ ان بلیغ گالیوں کی وجہ سے تھا جو ان کی نوکِ زبان پر ہمہ وقت رہتی تھیں اور جنھیں سننے کے لیے لوگ ان سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ اردو شاعری کی پوری تاریخ میں شاید ہی ان جیسا کوئی دوسرا شاعر گزرا ہو جو شاعری اور گالیوں پر یکساں عبور رکھتا تھا۔

ڈاکٹر اسلم پرویز کے بقول: "ان کی گفتگو میں گالیوں کی مقدار نمک میں آٹے کی برابر ہوتی تھی۔”

- Advertisement -

جو کوئی ان کی گالیوں کا حال سنتا تو ان سے ملنے کا متمنی ہوتا تھا، لیکن وہ ہر ایرے غیرے کے سامنے گالیاں بکنا بھی کسرِ شان سمجھتے تھے۔ اس کے لیے ایک مخصوص موڈ اور محفل کی ضرورت ہوتی تھی اور انھیں مشتعل کرنے والا خاص پس منظر بھی۔

نہ جانے کب سے گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونے کی شعری حکایت جوں کی توں چلی آتی ہے۔ استاد رساؔ دہلوی کی گالیوں کی خوبی یہ تھی کہ کوئی انھیں سن کر بے مزہ نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض تو ایسے بھی تھے جو ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

استاد رساؔ حضرت بیخود دہلوی کے نہایت سعادت مند شاگرد تھے، لیکن خود ان کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ عرفِ عام میں ’استاد‘ مشہور ہو گئے تھے۔

استاد رساؔ کھرے دلّی والے تھے۔ وہ فصیل بند شہر کے لوگوں کو ہی اصلی دلّی والا مانتے تھے۔ دہلی کے باقی علاقوں میں رہنے والوں کو وہ ’غیر ملکی‘ تصور کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ انگریزوں نے جمنا کے اوپر پل بنا کر دلّی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ نہ یہ پُل ہوتا اور نہ باہر کے لوگ دلّی آتے۔ استاد رساؔ کا اپنا مکان حوض سوئیوالان میں تھا، لیکن وہ سب سے کم اسی علاقہ میں نظر آتے تھے۔سنا ہے انھیں فٹبال کھیلنے کا بھی شو ق تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک آزاد منش انسان تھے۔ بیوی بچوں کو بوجھ سمجھتے تھے، اس لیے یہ روگ بھی انھوں نے نہیں پالا تھا۔ ان کے مزاج اور چال ڈھال میں بلا کا بانکپن تھا۔ ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کے درمیان بیچ کا راستہ نہیں تھا۔ مخالفوں کا شجرۂ نسب انھیں منہ زبانی یاد رہتا تھا اور وقتِ ضرورت اس کے بیان میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔

استاد رساؔ نے 8 اکتوبر 1976ء کو بہ عارضہ کینسر 76 سال کی عمر میں وفات پائی۔

(معصوم مراد آبادی کے مضمون سے چند پارے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں