تازہ ترین

یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

"بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے، ابنِ انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے۔” آج کئی ادبی جہات کے حامل اور چاند نگر کے مالک ابنِ انشاء کی برسی ہے۔

ابنِ انشاء کے لیے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے قلم کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والی کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ اردو طنز و مزاح کے سرخیل سمجھے جانے والے مشتاق احمد یوسفی ہیں۔

اردو نظم اور نثر پر حاوی ہوجانے والے ابنِ‌ انشاء نے شاعری، مزاحیہ نثر، سنجیدہ مضامین، کالم، سفر نامے لکھے اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے۔ ابن انشاء ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنّف، مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی ہر تحریر ان کے منفرد اسلوب اور موضوع کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی۔ انشاء جی کے قارئین اور مداحوں کی بڑی تعداد ادبی رسائل، اخبار اور کتابیں‌ ان کی تحریر پڑھنے کے لیے خریدا کرتی تھی۔ شاعری کے علاوہ سفر ناموں، تراجم اور مختلف مضامین پر ان کی تصنیف اور تالیف کردہ کتب اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

ڈاکٹر انور سدید نے سفرناموں پر مبنی اپنی ایک کتاب میں انشاء جی کے اسلوب اور طرزِ بیان پر لکھا ہے، ’’چلتے ہو تو چین چلیے ‘‘،’’دنیا گول ہے‘‘،’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘‘اور”آوارہ گرد کی ڈائری‘‘میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیاء کے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔

ابن انشا کی شخصیت میں سرشار کے سیلانی اور میر امن کے درویش دونوں کی خصوصیات جمع تھیں، چنانچہ ان کے شوق کی کمی بھی نہیں تھی، اور وحشت کا توڑا بھی نہیں تھا۔ فقط سبب کی حاجت ہوتی تھی۔ اور یہ سبب کتابی دنیا کی کوئی غیر ملکی کانفرنس مدت مدید کا وقفہ ڈالے بغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ابن انشا کے بیشتر سفر سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کی بدولت ہی ظہور میں آئے اور سفروں کا حال اخباری ضرورتوں کے لیے لکھا گیا۔

ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔

ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید مزید لکھتے ہیں، انشا کے طنز میں فطری نفاست ہے اور اس کا مزاج غیر جذباتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں کے بین السطور معانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

ابنِ انشاء کو سرطان کے مرض نے ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ابنِ انشاء کی میّت کراچی لائی گئی اور اسی شہر میں پاپوش کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا اور بعد میں باتیں انشاء جی کا قلمی نام اپنا لیا۔ وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

شاعر اور ادیب ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے بعد ان کے شعری مجموعے ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ کے نام سے سامنے آئے۔ ابنِ انشاء نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ شاعری اور نثر دونوں‌ میں انھوں‌ نے بچّوں کی دل چسپی اور ذہنی سطح‌ کے مطابق ان کی تربیت اور فکری راہ نمائی کی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے لکھے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ ان میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔ مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ ابنِ انشاء کے خطوط بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب ادبی حلقوں اور ان کے قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ خطوط کتابی شکل میں موجود ہیں۔

ابنِ انشاء نے شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی لیکن اصل نکھار اس وقت آیا جب تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور آئے، لاہور اس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، ادبی مباحث، مشاعرے، ادبی مجالس اور مختلف تنظیموں کے ہفتہ وار اجلاس میں تخلیقات پر بات کی جاتی تھی جس میں شرکت نے انشاء کے ادبی رجحانات اور ان کے افکار پر بھی اثر ڈالا۔ ابنِ‌ انشاء ملکی ادب کے ساتھ عالمی سطح پر شہرت رکھنے والے تخلیق کاروں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہے اور سیکھنے سکھانے کا سفر جاری رکھا۔

ابنِ انشا کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

کل چودھویں‌ کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

اس غزل کو پاکستان اور بھارت کے کئی گلوکاروں نے گایا اور ان کی یہ غزل بھی مشہور ہوئی۔

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور باذوق حلقوں‌ میں‌ بھی مقبول تھے۔ انھوں نے اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور مختلف علمی و ادبی شخصیات کی زندگی کے بعض واقعات بھی تحریر کیے جو پُرلطف بھی ہیں اور کسی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابنِ‌ انشاء پر بھی ان کے ہم عصروں نے مضامین لکھے۔ ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا کے ایک عشق کا قصّہ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

"احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔

جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

اب انشاء جی کے قلم سے نکلی ایک تحریر بھی پڑھ لیجیے۔ یہ شگفتہ تحریر اردو کے اس بے مثال تخلیق کار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ابنِ‌ انشاء لکھتے ہیں:

ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

Comments

- Advertisement -