تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

جواہرات

نیلگوں آسمان پر سفید سفید بادل تیر رہے تھے۔ آمدِ سحر کی خبر پاکر چاند کا رنگ فق ہوگیا اور اس نے بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے پیچھے اپنا منہ چھپا لیا۔

مرمریں محل کی ایک کھڑکی کے پاس جس کے نیچے روپہلی ندی گنگناتی بہتی چلی جارہی تھی۔ ایک نوعروس، صبح کی پُرتبسم فضا میں بُت بنی کھڑی تھی۔ بلبلیں قفس کے گوشے میں آرام کررہی تھیں۔ محل کے دروازے کے سامنے کشتیاں نسیمِ سحر کی پیدا کی ہوئی ہلکی ہلکی موجوں کے بہاﺅ میں لڑکھڑاتے ہوئے جارہی تھیں۔

دلہن کے پیچھے ایک پلنگ پر لباسِ عروسی پڑا تھا۔ ایک زمرد کی ترشی ہوئی صندوقچی پر زیورات پریشان تھے۔

دلہن اپنے ہاتھوں میں جواہرات کا ایک ہار لیے ہوئے تھی۔ کمرے کی تاریک فضا میں اس ہار کے دانے اس طرح دمک رہے تھے جیسے کسی مقدس بزرگ کے پُرنور چہرے کے گرد روشن حلقہ بنایا ہوا ہو۔

اس نے اپنی نازک گردن میں اس ہار کو پہنا اور پھر اتار دیا اور ندی میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کرنے کے لیے دریچے سے جھانکنے لگی۔ ندی میں سے سورج کا لرزتا ہوا عکس اس کے سنہری بالوں کو الگ الگ کرکے منور کررہا تھا۔

دلہن اس قدر مسرور تھی کہ اس کے ذہن میں کسی ایک خیال کی گنجائش نہ تھی اور دھندلی فضا میں ندی کے آس پاس جھلملاتی ہوئی بستی کا خوب صورت نظارہ اس کی مستور مسرتوں کا ایک پرتو تھا۔ جب سورج نے دور اُفق پر درختوں کے جھنڈ سے سَر نکالا۔ سپید ہار کے دانے اور بھی جگمگانے لگے۔

ایک سبک رفتار کشتی بادل کے سائے کے مانند محل کے اس طرف نمودار ہوئی۔ دلہن کی نگاہ اس پر پڑی، کشتی کے اندر کافوری کفن میں لپٹا ہوا ایک جنازہ رکھا تھا اور اس کے سرہانے ایک عورت بنفشی لباس پہنے رو رہی تھی۔ کفن پر کچھ زرد رنگ کے پھول پڑے تھے۔

اس درد ناک منظر نے دلہن کے نازک دل پر اس قدر اثر کیا کہ اس کا تمام جسم کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے زمرد کی مالا گر کر کشتی میں بیٹھی ہوئی غمگین عورت کی گود میں جا پڑی۔ کشتی تھوڑی دیر میں سورج کی شعاعوں میں غائب ہوگئی۔

دلہن کو ہار کے کھو جانے کی کوئی خبر نہ تھی۔ غم زدہ ماں اور جنازے نے اس کے مضطر خوابوں کو آوارہ کر دیا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مہیب ہاتھ اس کی راحتوں اور امیدوں کو چھیننے کے لیے رات کی سیاہی کی طرح آہستہ آہستہ اس طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔

وہ معمورۂ عالم میں تنِ تنہا، رنج اور دہشت سے کانپ رہی تھی اور سورج کی کرنیں جو تھوڑی دیر پہلے جواہرات کو منور کررہی تھیں اس کے آنسوﺅں میں چمکنے لگیں۔

دوسری طرف وہ عورت تھی جو کشتی میں اپنے مردہ بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھی۔ اس نے ہار کو اپنی گود میں گرتے ہی دبوچا اور جب اس نے ایسے انمول جواہرات کو اپنے قبضے میں پایا جن کا ثانی اسے تمام عمر نصیب نہ ہوا تھا، اس کے پُر درد آنسوﺅں میں ایک مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔

ملاح سے نظر بچا کر اس نے بچے کے کفن کی طرح سپید ہار کو اپنے بنفشی لباس میں چھپا لیا اور نعمتِ غیر مترقبہ نے اس کے دل سے سب رنج و غم مٹا دیا۔

اس کہانی کی برطانوی مصنف مارجوری بوون (Marjorie Bowen) تاریخی واقعات اور مہم جوئی پر مبنی قصوں‌ کے علاوہ پُراسرار، ڈراؤنی اور مافوق الفطرت کہانیاں تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی پیشِ نظر کہانی کو بدرالدین نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے۔

Comments

- Advertisement -