ایک گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ سارا دن آگ کی بھٹی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ لوہا گرم کرتا، اسے کوٹتا اور کسانوں کے لیے ہل، کلھاڑے کے پھل اور درانتیاں وغیرہ بناتا رہتا۔ سردی ہو یا گرمی ، سارا سال وہ اسی کام میں جٹا رہتا تھا۔
ایک دن شدید گرمی میں لوہار بھٹی میں لوہا گرم کرنے کے بعد اسے کوٹ رہا تھا تاکہ وہ اوزار تیار کرسکے جو اسے گاہک کو بیچنا ہے۔ ایسا کام خطرناک بھی ہوتا ہے اور بہت زیادہ احتیاط بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کبھی بھول چوک اور کبھی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔ لوہار کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ حادثاتی طور پر اس روز گرم ایک ٹکڑا اس کے جوتے میں جا پڑا۔ اس نے جلدی سے جوتا اتارا، لیکن اس وقت تک پاؤں جل چکا تھا۔ لوہار کو سخت تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:
’’یہ کام بہت سخت ہے۔ بھٹی کی گرمی اور پھر گرم لوہے کے ٹکڑے، میں تو اس کام سے تنگ آگیا ہوں۔ بہتر ہوتا، اگر میں پہاڑ پر پڑا ایک پتھر ہوتا۔ پہاڑ پر پڑا پتھر کتنا خوش ہوتا ہو گا۔ پہاڑ پر ہر وقت چلتی ہوا، اسے ٹھنڈا رکھتی ہو گی۔ پھر، پہاڑی پر درختوں کا سایہ بھی تو ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہتی ہو گی۔‘‘
جب لوہار باتیں کر رہا تھا تو اسی وقت وہاں سے ایک جنّ کا گزر ہوا۔ جنّ نے اس کی باتیں سنیں اور لوہار سے کہا: ’’چلو، میں تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ لوہار کا وجود ایک پتّھر میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھر اس پتّھر کو ایک بڑے پہاڑ کے اوپر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں پہنچ کر لوہار جو اب ایک پتّھر بن چکا تھا، تھوڑی دیر تو آرام سے پڑا رہا، لیکن پھر ایک شخص اس پہاڑ پر آپہنچا۔ یہ شخص کچھ خاص قسم کے پتّھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ انہیں تراش کر مجسمے وغیرہ بنا سکے۔ اس نے کئی پتّھر اپنے تھیلے میں اکٹھا کر رکھے تھے اور جب اس پتّھر پر نظر پڑی تو کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اسے اپنے مطلب کا جان کر اٹھایا اور تھیلے میں کئی پتّھروں کی طرح اسے بھی ڈال لیا۔ یہ پتّھر جو اصل میں لوہار تھا، کچھ دیر ہلتے ہوئے تھیلے میں رہا اور محسوس کیا کہ وہ شخص یہ تھیلا اٹھائے اونچے نیچے راستوں پر بڑھ رہا ہے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گیا اور پتّھروں سے بھرے ہوئے تھیلے کو ایک جگہ رکھ دیا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ وہ سنگ تراش آیا اور اس نے تھیلا الٹ دیا۔ اس میں سے چند پتّھر دیکھ بھال کر اٹھائے جن میں لوہار بھی شامل تھا۔ سنگ تراش نے اچانک اسے ہاتھ میں لے لیا اور لگا لوہے کے اوزار سے اسے کاٹنے۔ یہ پتّھر چلّانے لگا:
’’مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ ضرب سے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے، میں پتّھر نہیں رہنا چاہتا۔ بہتر ہے میں پتّھر کاٹنے والا بن جاؤں۔‘‘ اس کی خواہش جنّ تک فوراً پہنچ گئی۔ اس نے اسے پتّھر سے دوبارہ انسان بنا دیا اور اسے سنگ تراشی کے پیشہ کا پابند بھی کردیا۔ اب وہ شخص جو کبھی لوہار تھا اور پتّھر بن گیا تھا، ایک سنگ تراش کی حیثیت سے پہاڑوں میں پتّھروں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور تھا۔ اس نے پتّھر ڈھونڈنے کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا، لیکن اسے مناسب پتھر نہیں مل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ ان سے خون رِسنے لگا۔ سورج کی تپش سے پہاڑ پر موجود پتّھر نہایت گرم ہو رہے تھے۔ اسے یہ سب مشکل لگا۔ اس نے چلّانا شروع کر دیا:
’’میں پتّھر کاٹنے والا نہیں رہنا چاہتا۔ میں سورج بننا چاہتا ہوں۔‘‘ اس مرتبہ جنّ نے پھر اس کی آرزو پوری کردی اور اسے سورج بنا دیا۔ سورج بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ اس کا اپنا وجود ہی لوہار کی بھٹی سے بھی زیادہ گرم ہے۔ تپتے پتّھر سے بھی زیادہ گرم ہے۔ سورج میں تبدیل ہوتے ہی اس نے لمحوں میں اپنی خواہش داغ دی اور کہا:
’’میں سورج نہیں رہنا چاہتا۔ چاند، سورج کے مقابلے میں کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں چاند بننا چاہتا ہوں۔‘‘ جنّ نے سورج کی یہ آواز سنی۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے لوہار کو چاند بنا دیا۔ چاند بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ چاند پر تو سورج کی ہی روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی اسی طرح تپتا ہے، جیسے سورج کی تپش سے پتھر تپتا ہے۔ اس نے کہنا شروع کر دیا:
’’میں چاند بن کر نہیں رہ سکتا، مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ لوہار کی زندگی ہی سب سے بہترین ہے۔‘‘ جنّ نے اس کی بات سنی اور کہنے لگا:
’’تم نے جو کہا، میں نے تمہیں ویسا ہی بنا دیا۔ اب میں تمہاری فرمائشوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم نے چاند بننے کا کہا، میں نے تمھیں چاند بنا دیا۔ اب تم چاند ہی رہو۔ اس نے یہ سنا تو جنّ کے آگے گڑگڑانے لگا اور بولا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اپنے پیشے کی برائی نہیں کروں اور بے جا خواہشات سے بھی باز آتا ہوں، تم مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔ جنّ نے اس کے ساتھ نرمی برتی اور اسے لوہار بنا کر نصیحت کی کہ دیکھو جس حال میں ہو خوش رہنا سیکھو، اور ذرا سی تکلیف یا برا وقت آنے پر اپنے اُس پیشے کو برا نہ کہو جس سے تم ایک عرصہ سے روزی کا بندوبست کرتے آ رہے ہو۔ ایسا کرنے والا ناشکرا اور بے وفا انسان ہوتا ہے۔
(اطفالِ ادب سے انتخاب)