نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
ڈریٹن عین اس وقت کھڑکی پر پہنچا تھا جب اینگس نے موتی گولے میں رکھا۔ وہ عادت کے مطابق بڑبڑایا: ’’تو اب صرف نو رہ گئے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے گلے میں لٹکے نیکلس پر نظر دوڑائی۔ ستارے کی تیسری نوک چمکنے لگی تھی۔ اس نے مکاری سے دل ہی دل میں کہا: ’’بہت اچھی جا رہی ہو فیونا، لگی رہو۔ لیکن یہ ڈریگن دیوار پر کیوں چمک رہے ہیں، خیر، مجھے اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہی ڈریگنز ہیں۔ یہاں میرا بہت سارا وقت ضائع ہو رہا ہے اور میں اس گندے گاؤں میں مزید ایک ہفتے کے لیے ہرگز نہیں ٹھہرنا چاہتا۔‘‘
اسی وقت کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اینگس نے دروازے پر پہنچ کر کوئی بات کی اور پھر دروازہ کھول دیا۔ ایک شخص اندر داخل ہوا، اس نے سب سے ہاتھ ملایا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے سے واقف ہوں لیکن یہ نیا شخص کون ہے؟ وہ حیرت سے سوچنے لگا۔ کہیں ان قیمتی پتھروں کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟ اس کا مطلب ہے کہ مجھے قلعے جا کر جادوگر سے بات کرنی پڑے گی۔ یہ سوچ کر وہ احتیاط کے ساتھ درخت سے اترا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آہا… آرٹر، تمھیں اتنے طویل عرصے بعد دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔‘‘ جیزے نے کہا اور اسے گلے لگا لیا۔ جمی نے بھی ایسا ہی کیا۔ ایسے میں جبران نے چاکلیٹ بسکٹ منح میں ڈالتے ہوئے عجیب سوال پوچھ لیا: ’’آپ نے کیسے جانا کہ آپ نے یہیں آنا ہے؟‘‘
آرٹر پہلی بار ان پر نظر ڈال کر چونکا۔ ’’یہ کون ہیں جمی؟‘‘
جمی نے تعارف کرایا کہ یہ فیونا، جبران اور دانیال اور یہ فیونا کے انکل اینگس ہیں۔ سب ہی جادوئی گولے سے منسلک ہو چکے ہیں!‘‘
’’جادوئی گولا!‘‘ آرٹر اچھل پڑا۔ ’’اوہ… تو آخر کار وہی ہوا جس کا مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے۔‘‘ اس نے جادوئی گولے پر نظر ڈالی اور کہا: ’’تو یہ ہے وہ موتی، کتنا عرصہ ہو گیا ہے اب اس بات کو۔ ویسے یہ کون سا سال ہے؟‘‘
’’تمھیں یقین نہیں آئے گا سن کر۔‘‘ جیزے نے جواب دیا: ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔‘‘
’’اوہ… اچھا، ان بچوں میں کنگ کیگان کا وارث کون ہے؟‘‘
’’میں …‘‘ اچانک فیونا بول اٹھی۔ ’’میں ہوں اور جونی کے مطابق کنگ دوگان کی وارث بھی ہوں۔‘‘
’’جونی … جونی کون ہے؟‘‘ آرٹر حیران ہوا۔ اینگس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’آلرائے کیتھمور۔‘‘
’’لیکن ہم مختلف ناموں سے کیوں پکارے جا رہے ہیں؟‘‘ آرٹر نے پریشان ہو کر پوچھا۔ اینگس بتانے لگے کہ اس صدر میں ان کے نام بہت عجیب لگتے ہیں، اس لیے کوآن کا نام جمی رکھا گیا، پونڈ کا جیزے اور خود آرٹر جیک کے نام سے رہے گا۔
’’جیک … یہ بھلا کیسا نام ہے؟‘‘ آرٹر نے منھ بنا لیا۔ جیزے نے مسکرا کر کہا کہ جدید نام ایسے ہی ہوتے ہیں۔
’’تعارف ہو گیا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ’’جیک، اب تم بیٹھ جاؤ، فیونا مجھے سیچلز کے سفر کی روداد سنا رہی ہے۔‘‘
’’جیک، آپ نے موتی پر بہت ہی خراب قسم کا جادو کر دیا تھا۔‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا۔ ’’جبران، دانی اور مجھے اسے حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ عظیم الجثہ آکٹوپس اور خونی لہروں کے باعث موت کے منھ میں جاتے جاتے بچے ہم!‘‘
’’لیکن پائریٹس بہت ہی احمق تھے، آپ کچھ بہتر کر سکتے تھے۔‘‘ اچانک جبران نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا۔‘‘ جیک نے جھینپ کر کہا۔ فیونا نے انھیں سیچلز کے سفر کی ساری کہانی سنا دی تو اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں، میں نے دشمن کو ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
(جاری ہے…)

Comments