تازہ ترین

ہماری ایک شرط ہے!

خود نوشت اپنی حیات کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو مصنّف اشفاق محمد خاں کی خود نوشت ’’اپنی بیتی‘‘ سے غلام ہندوستان کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

اگر کسی کو انگریزوں کے عہد میں ریکروٹمنٹ کے طریقۂ کار کو جاننے کی خواہش ہو تو اس کتاب میں اس ضمن کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جس سے اس کے طریقۂ کار کو جانا جا سکتا ہے۔ اپنے بابا جان علی محمد خاں کے پولیس میں جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ابا جان ابھی 16 ہی برس کے تھے لیکن چونکہ وہ کھاتے پیتے ایک چھوٹے زمین دار گھرانے کے فرد تھے اس لیے ڈیل ڈول کے اعتبار سے 25 کے دکھتے تھے۔ ایک دن ایک انگریز پولیس افسر نے ان کو دیکھ کر پولیس کی نوکری کی پیشکش کر ڈالی۔ بابا جان نے کہا کہ جب تک میں اپنے والدین سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک ہاں نہیں کہہ سکتا۔ جب والدین سے انہوں نے پوچھا تو جواب ملا:

تم ضرور نوکری قبول کر لو مگر ہماری ایک شرط ہے کہ تم کبھی بھی کسی سے رشوت یا کمیشن نہیں لو گے اور نہ ہی کسی کا دل دکھاؤ گے اور ہمیشہ نماز کے پابند رہو گے۔

علی محمد خاں نے ان شرائط کو بخوشی قبول کیا اور اس پر کار بند رہنے کے عہد کے ساتھ پولیس میں نوکری کے لیے انگریز افسر کو ہاں کہہ دی۔ ٹریننگ کے بعد بہت جلد قیصر باغ کوتوالی کے سب انسپکٹر بنا دیے گئے لیکن ہمیشہ اپنے عہد پر کار بند رہے۔ جب ان کو احساس ہوا کہ رشوت یا کمیشن کے بغیر بہت دنوں تک پولیس کی نوکری نہیں کی جا سکتی تو انہوں نے نوکری کو خیرآباد کہا اور 1932ء میں وظیفہ لے کر اپنے وطن قائم گنج واپس ہوگئے۔

اس واقعے میں جہاں پولیس کے ریکروٹمنٹ کے نظام پر روشنی پڑتی ہے وہیں اس زمانے میں چل رہی رشوت اور کمیشن کے بول بالے کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا بھی علم ہوتا ہے کہ انھیں کراہیت و خدشے کی وجہ سے مسلمان اپنے بچوں کو پولیس کی نوکری سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے جیسا کہ آج بھی ہوتا ہے۔

(محقق شاہد حبیب کے مضمون سے اقتباس)

Comments

- Advertisement -