تازہ ترین

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

معروف افسانہ نگار شموئل احمد انتقال کرگئے

معروف افسانہ اور ناول نگار شموئل احمد کو علمِ‌ نجوم میں‌ بھی کمال حاصل تھا۔ وہ جنسی نفسیات پر مبنی کہانیاں‌ لکھنے کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ شموئل احمد آج نوئیڈا میں‌ وفات پاگئے۔ وہ کینسر کے عارضے میں‌ مبتلا تھے۔

شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ وہ پیشہ کے لحاظ سے سول انجینئر تھے اور بھارت میں حکومتِ بہار کے محکمۂ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سے بحیثیت چیف انجینئر 2003 میں ریٹائر ہوئے تھے۔ شموئل احمد کو بے باک لہجے اور منفرد اسلوب کا تخلیق کار مانا جاتا تھا جو زندگی اور انسانی رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ شموئل احمد کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "بگولے” 1988 میں پٹنہ سے شائع ہوا تھا۔

مصنف نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تو جلد ہی اپنی تخلیقات میں‌ منفرد اسلوب، تیکھے لب و لہجے اور متنوع موضوعات کی وجہ سے ہم عصروں میں الگ پہچان بنا لی۔ انھوں‌ نے جنسی نفسیات کو عمدگی سے اپنی کہانیوں میں‌ سمویا اور ساتھ ہی عصری مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ شموئل احمد نے فرد کی بے بسی اور سماج کی نوعیت اور سیاسی جبر کو بھی فنی مہارت سے اپنے افسانوں‌ میں‌ ڈھالا۔

شموئل احمد کی کہانیاں پاک و ہند کے رسائل میں‌ شایع ہوتی رہی ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر مضامین سپرد قلم کیے گئے جب کہ ان کے افسانوں‌ کا انگریزی میں‌ بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ انھیں‌ متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

شموئل احمد کا تعلق اردو افسانہ نگاری کے اس عہد سے ہے جب جدیدیت کا رجحان طلوع ہو رہا تھا۔ اس زمانے میں علامتی اور تجریدی تجربات کیے جارہے تھے، لیکن شموئل احمد نے کسی کا تعاقب نہیں‌ کیا اور اپنی الگ راہ نکالی۔ تاہم ان کی نیم علامتی کہانیوں کی فہرست میں آخری سیڑھی کا مسافر، عکس سیریز کی کہانیاں، سبز رنگوں والا پیغمبر کو رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیاسی و معاشرتی تشدد کے ذیل میں باگمتی جب ہنستی ہے، سنگھار دان، آنگن کا پیڑ، بدلتے رنگ، چھگمانس، گھر واپسی، سراب اور عدم گناہ شمار کیے جاسکتے ہیں۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علمِ نجوم سے خاص مناسبت رکھتے تھے جس کا فائدہ اٹھا کر انھوں نے اپنی کہانیوں کو بامعنی اور جان دار بنایا ہے۔

اردو کے اس معروف فکشن رائٹر پر بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کے دوران حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ان افسانے ’’لنگی‘‘ پر ردعمل تھا جس میں انھوں نے یونیورسٹی میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال کو موضوع بنایا تھا۔

Comments

- Advertisement -