تازہ ترین

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

مولوی وحید الدّین سلیم اسی سرزمینِ پانی پت کے فرزند تھے جس نے جدید رجحانات کے پہلے علم بردار مولانا الطاف حسین حالی کو جنم دیا تھا۔ پروفیسر وحید الدّین سلیم پانی پتی ایک بلند پایہ عالم، محقق، نثار، شاعر، ماہرِ لسانیات اور واضع اصطلاحات تھے۔

مرفہ الحال ریاست دکن میں‌ جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تو وہ اردو کے پہلے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور بعد ازاں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب "وضعِ اصطلاحات” تصنیف کی جو اصطلاح سازی کے فن پر اردو میں پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ "افاداتِ سلیم” ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اردو کے مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ ان پر لکھا گیا ایک خاکہ نہایت مقبول ہے جس سے ہم یہ اقتباسات آپ کے لیے پیش کررہے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:

"خدا بخشے، مولوی وحید الدّین سلیم بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں نا تراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا، پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔”

"مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ ایسے ایسے الفاظ دماغ سے اتارتے کہ باید و شاید۔ جہاں ثبوت طلب کیا اور انہوں نے شعر پڑھا، اور کسی نہ کسی بڑے شاعر سے منسوب کر دیا۔ اب خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ خود ان کا شعر ہوتا تھا یا واقعی اس شاعر کا۔ بھلا ایک ایک لفظ کے لیے کون دیوان ڈھونڈتا بیٹھے۔ اگر کوئی تلاش بھی کرتا اور وہ شعر دیوان میں نہ ملتا تو یہ کہہ دینا کیا مشکل تھا کہ یہ غیر مطبوعہ کلام ہے۔”

"انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر پورے حاوی تھے۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں، ان ٹکڑوں کی اصل کیا ہے، اور اس اصل کے کیا معنے ہیں۔ اس بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے کہ ایک دفعہ کوئی لفظ سنا اور یاد ہو گیا۔”

"الفاظ کے ساتھ انہوں نے اس پر بھی بہت غور کیا تھا کہ انگریزی میں اصطلاحات بنانے میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، انہیں اصولوں کو اردو کی اصطلاحات وضع کرنے میں کام میں لاتے اور ہمیشہ کام یاب ہوتے۔ میری کیا اس وقت سب کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات بنانے کے کام میں مولوی وحید الدّین سلیم اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور اب ان کے بعد ان کا بدل ملنا دشوار تو کیا ناممکن ہے۔ عربی اور فارسی میں اچھی دسترس تھی، مگر وہ اردو کے لیے بنے تھے۔ اور اردو ان کے لیے۔

خوب سمجھتے تھے اور خوب سمجھاتے تھے۔ زبان کے جو نکات وہ اپنے شاگردوں کو بتا گئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ کالج کے لونڈے وہ مضمون لکھ جاتے ہیں، جو بڑے بڑے اہلِ قلم کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتے۔”

"مولوی صاحب کیا مرے، زبانِ اردو کا ایک ستون گر گیا اور ایک ایسا ستون گرا کہ اس جیسا بننا تو کجا، اس حصّے میں اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے۔ اس کی جگہ بھرنے کے لیے دوسرے پروفیسر کی تلاش ہو رہی ہے مگر عثمانیہ یونیورسٹی کے اربابِ حلّ و عقد لکھ رکھیں کہ چاہے اِس سرے سے اُس سرے تک ہندوستان چھان مارو، مولوی وحید الدّین سلیم جیسا پروفیسر ملنا تو بڑی بات ہے، ان کا پاسنگ بھی مل جائے تو غنیمت اور بہت غنیمت سمجھو۔”

(ماخوذ از مضمون ‘ایک وصیّت کی تعمیل میں’)

Comments

- Advertisement -