تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

‘اس تکلف میں کیوں پڑیں؟’

روزمرّہ، محاورہ اور کہاوتیں کسی انسان کے مشاہدات اور زندگی کے تجربات کی وہ شکل ہوتی ہے جو عام بول چال میں‌ جگہ پا کر اس کا حُسن بڑھاتے ہیں۔ ان محاوروں اور ضربُ الامثال میں ہم تہذیب و تمدن کے رجحانات، کسی سماج کے قدیم عقائد اور رسم و رواج کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔

اردو ادب میں نثر اور نظم کی اصناف بھی رنگا رنگ محاوروں سے مزیّن ہے اور اسی لیے زبان و ادب کی تفہیم کے لیے محاورہ سے واقفیت ضروری ہے۔ مگر آج عام آدمی تو کیا اہلِ علم بھی بامحاورہ زبان بولنے اور لکھنے سے دور ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے محمد حسن عسکری کے مضمون ’محاوروں کا مسئلہ‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

"بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ محاوروں کے استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر سیدھے سادھے لفظوں سے کام چل جائے تو اس تکلف میں کیوں پڑیں؟

دو چار لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ محاورے استعمال ہوں اور اس کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ پرانا ادب پڑھا جائے۔ اگر اس طرح سے محاوروں کا استعمال سیکھا جا سکتا ہے تو پھر وہ لغت والا نسخہ ہی کیا بُرا ہے؟ خیر اپنی اپنی رائے تو اس معاملے میں سبھی دے لیتے ہیں۔ کوئی محاوروں کو قبول کرتا ہے، کوئی رد۔ لیکن جو بات پوچھنے کی ہے وہ کوئی نہیں پوچھتا۔

اصل سوال تو یہ ہے کہ محاورے کب استعمال ہوتے ہیں اور کیوں؟ اور محاوروں میں ہوتا کیا ہے؟ وہ ہمیں پسند کیوں آتے ہیں؟ ان سے بیان میں اضافہ کیا ہوتا ہے؟

خالص نظریاتی بحث تو مجھے آتی نہیں۔ ایک آدھ محاورے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔ سرشار نے کہیں لکھا ہے، ’’چراغ میں بتی پڑی اور اس نیک بخت نے چادر تانی۔‘‘ اس اچھے خاصے طویل جملے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی شام ہی سے سو جاتی ہے، تو جو بات کم لفظوں میں ادا ہو جائے اسے زیادہ لفظوں میں کیوں کہا جائے؟ اس سے فائدہ؟

فائدہ یہ ہے کہ جملے کا اصل مطلب وہ نہیں جو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس سے کہیں زیاد ہ ہے۔ ’’شام ہونا‘‘ تو فطرت کا عمل ہے۔ ’’چراغ میں بتی پڑنا‘‘ انسانوں کی دنیا کاعمل ہے جو ایک فطری عمل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ عمل خاصا ہنگامہ خیز ہے۔ جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، جب سرسوں کے تیل کے چراغ جلتے تھے، انہیں یاد ہوگا کہ چراغ میں بتی پڑنے کے بعد کتنی چل پوں مچتی تھی۔ اندھیرا ہو چلا، ادھر بتی کے لئے روئی ڈھونڈی جا رہی ہے۔ روئی مل گئی تو جلدی میں بتی ٹھیک طرح نہیں بٹی جا رہی۔ کبھی بہت موٹی ہوگئی، کبھی بہت پتلی۔ دوسری طرف بچّے بڑی بہن کے ہاتھ سے روئی چھین رہے ہیں۔ یہی وقت کھانا پکنے کا ہے۔ توے پر روٹی نظر نہیں آ رہی، روٹی پکانے والی الگ چلّا رہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

’’چراغ میں بتی پڑنے‘‘ کے معنیٰ محض یہ نہیں کہ شام ہو گئی۔ اس فقرے کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ایک پورا منظر سامنے آتا ہے اس محاورے میں فطرت کی زندگی اور انسانی زندگی گھل مل کر ایک ہو گئی ہے۔ بلکہ شام کے اندھیرے اور سناٹے پر انسانوں کی زندگی کی ہماہمی غالب آگئی ہے۔

سرشار نے یہ نہیں کہا کہ سورج غروب ہوتے ہی سو جانا صحت کے لئے مضر ہے۔ انہیں تو اس پر تعجب ہوا کہ ایسے وقت جب گھر کے چھوٹے بڑے سب ایک جگہ جمع ہوں اور اتنی چہل پہل ہو رہی ہو، ایک آدمی سب سے منہ موڑ کر الگ جا لیٹے۔ انہیں اعتراض یہ ہے کہ سونے والی نے اجتماعی زندگی سے بے تعلقی کیسے برتی؟ پھر ’’چادر تاننا‘‘ بھی سو جانے سے مختلف چیز ہے۔ اس میں ایک اکتاہٹ کا احساس ہے۔ یعنی آدمی زندگی کی سرگرمیوں سے تھک جانے کے بعد ایک شعوری فعل کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کر کے چادر کے نیچے پناہ لیتا ہے۔ سرشار نے محض ایک واقعہ نہیں بیان کیا بلکہ عام انسانوں کے طرزِعمل کا تقاضا دکھایا ہے۔ اس انفرادی فعل کے پیچھے سے اجتماعی زندگی جھانک رہی ہے۔ محاوروں کے ذریعے پس منظر اور پیش منظر ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ہیں۔”

Comments

- Advertisement -