تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

وہ لمحہ جب اقوامِ متحدہ کا جنرل سیکریٹری اپنی ماں‌ سے ملا

اوتھانٹ، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری، لاہور آئے۔

ان کا استقبال کرنے والوں میں‌،میں بھی شامل تھا۔ انھوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔

اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے۔ اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔

یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔ بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ بے وزن باتیں جنھیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔ بے وجہ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔

ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیر اعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں ‌کر سکتا۔ آٹو گراف بُک جیب میں ‌ہی پڑی رہی اور دوسرے دن ان کا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔

میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ میں نے جب اسے کھولا تو اس میں ‌اوتھانٹ کی تصویر تھی۔

وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔ یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔ تصویر میں ‌ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔ سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔

اس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌ تاکہ وہ میری آٹو گراف بُک پر اپنے دستخط کر دے۔

(مختار مسعود کی کتاب آواز دوست سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -