تازہ ترین

مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

یہ تذکرہ ہے برصغیر کی دو علمی اور ادبی شخصیات کا جن کے افکار اور کردار کی ہندوستان کی تہذیب اور سیاست پر گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ایک تھے انشاء پرداز اور صاحبِ اسلوب ادیب آزاد اور دوسرے بے مثل خطیب اور شعلہ بیاں مقرر نواب بہادر یار جنگ۔

ان دونوں کا تذکرہ ہندوستان کی سبھی ممتاز اور قابل شخصیات نے بڑی عقیدت اور محبّت سے کیا ہے۔ یہ اقتباس ملّا واحدی کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظام المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہو گئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔ ”

"مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔ وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔”

"مولانا ابوالکلام کو تو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابوالکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔”

"مولانا ابوالکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔”

"مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیر معمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابوالکلام اپنی مشہور ”انا“ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔”

"مولانا ابوالکلام کی ”انا“ مغروروں اور متکبّروں کی سی ”انا“ نہیں تھی۔ وہ بس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابل ستائش ”انا“ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینئس۔ مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910ء میں تھے 1947ء تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔”

Comments

- Advertisement -