تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب جی چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہو کر رات کو فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سو گئے۔

آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے۔ سال میں کئی کئی پھیرے لاہور کے ہوجاتے تھے۔ لاہور ادیبوں کی منڈی تھا۔

سر سید نے انھیں زندہ دلانِ پنجاب کہا اور واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس خطے میں زندگی ابلتی ہے اور گنگناتی گاتی پھرتی ہے۔ کتنا خلوص تھا یہاں کے لوگوں میں اور کتنی محبت۔ ٹوٹ کر ملتے، ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ ان میں تیر میر نہیں آئی تھی۔

ادیب اور شاعر نرے ادیب اور شاعر ہی تھے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ آرٹسٹ کا مذہب تو آرٹ ہی ہوتا ہے۔ اب کی مجھے خبر نہیں، یہ کوئی سترہ اٹھارہ سال ادھر کی باتیں۔ اب تو زمین آسمان ہی بدل گئے تو بھلا ادب و شعر کی قدریں کیوں نہ بدلی ہوں گی؟ خیر، کچھ ہو گا۔ یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا نہیں۔

ہاں تو اچھے وقت تھے، اچھے لوگ تھے۔ ان سے مل کر جی خوش ہوتا تھا، ایک بار ملے، دوبارہ ملنے کی ہوس۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض کے ساتھ برسوں یک جائی رہی اور جی نہیں بھرا۔ بلکہ ان سے بے ملے چین نہیں پڑتا تھا۔

بے غرض ملتے، جی کھول کر ملتے۔ اجلی طبیعتیں تھیں۔ بعض دفعہ بڑی ناگوار باتیں بھی ہو جاتیں، مگر کیا مجال جو آنکھ پر ذرا بھی میل آجائے۔ تم نے ہمیں کہہ لیا، ہم نے تمھیں کہہ لیا، ایلو، دل صاف ہو گئے۔ اچھے لوگوں میں یہی ہوتا ہے۔ زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جب تک بندھن بندھا ہوا ہے، بندھا ہوا ہے، جب ٹوٹا ساری تیلیاں بکھر گئیں۔ جو دم گزر جائے غنیمت ہے۔ اب وہ دن جب بھی یاد آتے ہیں تو دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ یہی کیا کم عذاب تھا کہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، اب سناؤنی سننے کو کہاں سے پتھر کا دل لاؤں۔

بڈھے مرے، انھیں تو مرنا ہی تھا۔ میر ناصر علی مرے، ناصر نذیر فراق مرے، میر باقر علی داستان گو مرے، علامہ راشد الخیری مرے، مولانا عنایت اللہ مرے، کس کس کو گناؤں۔ ایک ہو تو بتاؤں۔

شاہد احمد دہلوی کی باتیں اور یادیں، ان کی کتاب گنجینہ گوہر سے انتخاب

Comments

- Advertisement -