ہفتہ, مئی 11, 2024
اشتہار

ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی ہونی چاہیے؟

اشتہار

حیرت انگیز

یوں تو ہر باشعور شخص زندگی سے متعلق کوئی خاص نظریہ اور اپنا نقطۂ نظر رکھتا ہے، لیکن ایک تخلیق کار زندگی کو کئی زایوں سے دیکھتا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ زندگی اتنی سادہ نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے، اس کے رنگ بہت متنوع ہیں اور یہ کئی حوالوں سے بہت سفاک یا نہایت دردناک بھی ہوسکتی ہے۔

یہاں‌ ہم کسی بچھڑ جانے والے سے متعلق اپنے رویّوں کی ایک جھلک فرانس کے نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو کی تحریر میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کامیو کے ناول سے لی گئی سطور ہیں جس کا ترجمہ محمد عمر میمن نے زوال کے نام سے کیا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

"ممکن ہے ہمیں زندگی سے اتنی محبت نہ ہو جتنی کہ ہونی چاہیے؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے، ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں۔”

- Advertisement -

"سب کچھ ہو چکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے وہ لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟”

"وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم باطمبنانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انھیں اسناد تقسیم کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انھیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیوں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔ نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انھیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی درد ناک موت سے، اپنے جذبات سے، اور چوں کہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبت کرتے ہیں!”

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں