امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف ایک اور عدالتی فیصلہ سامنے آگیا، ٹرمپ انتظامیہ کو آزاد اور غیرسرکاری ادارے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس پر قبضے سے روک دیا گیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وفاقی جج نے حکومتی کارکردگی کے محکمے ڈاج کی مداخلت کی درخواست مسترد کردی۔
یاد رہے ایلون مسک نے غیر سرکاری ادارے کے سربراہ سمیت عہدیداران کو برطرف کردیا تھا، جس پر انسٹیٹیوٹ آف پیس کے ملازمین نے برطرفی کیخلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے معاملے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے بیان جاری کیا کہ بد دیانت بیوروکریٹس کے ہاتھوں انتظامیہ یرغمال نہیں ہوگی۔
اس سے قبل بھی امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف حکم جاری کرنیوالے جج کا مواخذہ کرنے سے انکار کردیا۔
امریکی صدر کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ انکے خلاف حکم جاری کرنیوالے واشنگٹن ڈی سی ڈسٹرکٹ کورٹ کے چیف جج James E. Boasberg کا مواخذہ ہونا چاہئے۔
ٹرمپ انتظامیہ کو جج نے حکم دیا تھا کہ وہ حالت جنگ کے دور کی متنازعہ اتھارٹی استعمال کرکے وینزویلا کے گینگ اراکین کو اس وقت تک ڈیپورٹ نہ کریں جب تک کہ کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔
جج کا کہنا تھا کہ ڈیپورٹ کیے جانیوالے ایسے افراد کو لے جانے والے طیاروں کو واپس موڑنا چاہیے تاہم وائٹ ہاؤس نے اگلے روز کہا تھا کہ 137 افراد کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔
یوکرینی صدر کا روس سے عارضی اور محدود جنگ بندی پر اتفاق
امریکی صدر نے الزام لگایا ہے کہ جج Boasberg انتہائی دائیں بازو کے پاگل شخص ہیں اور ان ٹیڑھے دماغ کے ججوں میں سے ہیں جن کے سامنے انہیں پیش ہونا پڑا تھا، انکا ہرصورت مواخذہ ہونے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں ججوں کے مواخذہ کی کارروائی شاذونادر ہی کی جاتی ہے، امریکا میں 1804ء سے ابتک صرف 15ججوں کا مواخذہ کیا گیا ہے، آخری بار یہ اقدام 2010ء میں کیا گیا تھا۔