واشنگٹن : امریکا نے اسرائیل کو مزید 8 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ اور میزائل فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ہتھیار غزہ جنگ میں استعمال کیے جائیںگے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹیوں کو ایک نوٹیفکیشن ارسال کیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں مذکورہ منصوبے سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، اس بات کی اطلاع دو امریکی عہدیداروں نے دی۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں میں لڑاکا طیاروں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کے لیے گولہ بارود کے علاوہ توپوں کے گولے شامل ہیں۔
اس پیکج میں چھوٹے حجم کے بم اور دھماکہ خیز ہتھیار بھی شامل ہیں، جسے غزہ کے نہتے اور بے گناہ عوام کے خلاف استعمال کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کا واضح مؤقف ہے کہ اسرائیل کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق دفاع کا حق حاصل ہے اور امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے ضروری صلاحیتیں فراہم کرتا رہے گا۔
ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ پیکج میں اے آئی ایم 120سی ایٹ فضا سے فضا تک مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جو ڈرون اور دیگر فضائی خطرات سے بچاؤ کے لیے استعمال ہوں گے۔
اس کے علاوہ 155ملی میٹر توپ کے گولے، ہیلفائر اے جی ایم 114 میزائل اور دیگر بموں اور گائیڈنس سسٹم کے لیے 6.75 بلین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق رابطہ کرنے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
عالمی سطح پر تنقید کے باوجود امریکہ غزہ پر اسرائیل کے حملے کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ کی 23 لاکھ کی تقریباً پوری آبادی بے گھر اور وہاں غذائی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال اگست میں امریکہ نے اسرائیل کو 20 بلین ڈالر کے لڑاکا طیارے اور دیگر فوجی آلات فروخت کرنے کی منظوری دی تھی جس میں جیٹ طیارے، فوجی گاڑیاں، بم اور میزائل شامل تھے۔ اس کے بعد نومبر میں 68 کروڑ ڈالر کے ایک اور پیکیج کی منظوری دی گئی، جس میں بم اور دیگر جنگی آلات شامل تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا جو اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی اور ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے، غزہ میں جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی ویٹو کر چکا ہے۔