تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

راہ و رسمِ شہبازی!

گو پرواز کے لیے کسی اور پر انحصار راہ و رسمِ شہبازی کے خلاف ہے، مگر شہباز…. شریف ہو تو طیارے پر سفر کرتا ہے۔

اب ظاہر ہے شہباز کی طرح طیارہ شکاری کی دسترس سے بچنے کے لیے پہاڑوں پر تو نہیں اُتر سکتا، وہ تو ہوائی اڈے ہی پر اُترے گا۔ ویسے ہمارے خیال میں طیاروں میں بھی تھوڑا بہت شعور ضرور ہوتا ہے۔ جب موسم خراب ہو اور بادِ تند مخالف چل رہی ہو تو انھیں لاکھ پانی پر چڑھایا جائے کہ میاں، ”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے“ لیکن وہ ہل کے نہیں دیتے، بلکہ سُنا ہے بعض تو صاف صاف کہہ دیتے ہیں، ”کیا ہمیں شاہین سمجھا ہے؟“

طیاروں کے مزاج آشنا حضرات کے مطابق ان میں شعور ہی نہیں بڑا گہرا سیاسی شعور بھی ہوتا ہے، جب ہی عوام اور سیاسی جماعتیں تو آمروں کو گوارا کر لیتی ہیں، مگر ان سے برداشت نہیں ہوتا اور یہ پھٹ پڑتے ہیں۔ اس سے ہمارا یہ مطلب قطعی نہیں کہ شہباز میں شعور کی کمی ہے۔ ہرگز نہیں، بل کہ ہمارے نزدیک شہباز…. شریف ہو تو زیادہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور جھپٹنے کی بجائے اُلٹ پلٹ کر ہی لہو گرم کر لیتا ہے۔ یہ اس کی دانائی ہی تو ہے کہ قفس سے نکلنے کے راستے بنا لیتا ہے، یعنی؎ جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا۔

اب یہ الگ بات ہے کہ یہ راستہ جانے کا تو ہو سکتا ہے، آنے کا نہیں۔ علامہ اقبال کے دور تک شہباز کا نشیمن صرف زاغوں کے تصرف ہی میں ہوا کرتا تھا، لیکن علامہ کی شاعری کے مطالعے نے دیگر چرند پرند میں بھی شوقِ تصرف جگا دیا۔ لہٰذا اب پرندے تو پرندے، مقدس گائے اور اللہ میاں کی گائے کے بھی چیونٹی کی طرح پر نکل آئے۔ وہ اڑیں اور دھپ کر کے نشیمن میں جا بیٹھیں۔ مقدس گائے کیوں کہ مرکَھنے بیل کی صفات رکھتی ہے، اسی لیے شہباز کو نشیمن اور شیر کو کچھار چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

دوسری طرف اللہ میاں کی گائے چاہے جسامت کے اعتبار سے بیل نما ہو ”ذات بکری کی“ ہی ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ دیگر حیوانات کو مقدس گائے کی ناگزیریت کا احساس دِلانے کے لیے کہتی رہے ؎

رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے تیری گائے بنائی

خیر ہم مقدس گائے نہیں شہباز کا تذکرہ کر رہے تھے۔ شہباز اپنی صفات کی وجہ سے جہاں علامہ اقبال کو پسند تھا، وہیں علامہ کی نسبت سے ہمیں اور ہماری طرح دیگر کروڑوں پاکستانیوں کو بھی بھاتا ہے، بس بعض حضرات کو اس کا اونچا اڑنا پسند نہیں۔ جہاں اس نے اونچا اڑنے کی کوشش کی، وہیں اسے، ”نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر“ کہہ کر پہاڑوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اصولاً تو قرب مکانی کی بناء پر اسے قبائلی علاقوں کے کوہساروں یا کارگل کی چوٹی پر بھیجاجانا چاہیے، مگر ان مقامات پر ہوا کے دباؤ یا مخالف ہواؤں کی وجہ سے جانے والے کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے اور وہ جلد ہی واپس آجاتا ہے۔ لہٰذا شہباز کو دور دراز کے پہاڑوں پر بھیجا جاتا ہے۔ چوں کہ شاعر مشرق کے کلام سے اس پرندے کے مسلمان ہونے کا سراغ ملتا ہے، اس لیے سرزمین حجاز اس کی منزل قرار پاتی ہے۔ یوں مصوّرِ پاکستان کے ”مشورے“ کو حکم بنا کر اس کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔

ویسے تو کبوتر باز سے پتنگ باز تک کوئی باز ہمیں برا نہیں لگتا، مگر شہباز سے ہمیں خاص انسیت ہے، لہٰذا نشیمن چھوٹنے کی وجوہات نظم کر رہے ہیں، تاکہ اگر شہباز کا کوئی مستقبل ہو تو اس میں کام آئیں ؎

گر نہ جرنیل پہ جرنیل ہٹاتے جاتے
ان سے اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
وہ جو سیلون سے آئے تھے تو ویلکم کرتے
بھائی نادان تھا، تم ناچتے گاتے جاتے
ان کی ”بھیا“ سے تھی پرخاش تو بھیا جانے
تم ”میاں“ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
سو چلے جاتے مگر کچھ تو بتاتے جاتے
گر پَسر جاتے ایئرپورٹ پہ دل خوش ہوتا
اس شرافت سے گئے! کچھ تو ستاتے جاتے

(معروف مزاح نگار، شاعر اور ادیب محمد عثمان جامعی کی کتاب ‘ کہے بغیر’ سے انتخاب، اس شگفتہ پارے کا پس منظر مشرف دور اور ن لیگ کی قیادت کا بیرونِ ملک قیام ہے)

Comments

- Advertisement -