والد کا سایہ نہ رہے تو گھر کے معاشی حالات بگڑ جاتے ہیں بچے چھوٹے اور زیر تعلیم ہوں تو زندگی مشکل ہو جاتی ہے لیکن 15 سال احمد نے اس کو غلط ثابت کر دیا۔
مشکلات اگر حوصلہ پست کر دیں تو انسان وہیں شکست کھا جاتا ہے، لیکن یہی مشکلات اگر کچھ کرنے کا جذبہ بن جائیں تو کامیابی کے لیے راہیں خود بخود بنتی جاتی ہیں۔ ہمت اور جذبے کی ایسی ہی ایک کہانی کراچی کے 15 سال طالبعلم احمد کی ہے۔
والد نہ رہے اور گھر کے معاشی حالات بگڑے تو احمد نے حالات سے ہمت ہارنے کے بجائے کمزوری کو طاقت بناتے ہوئے اپنی والدہ کے ذائقہ کو روزگار بنا لیا۔
احمد جو آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہے جو صبح اسکول جاتا ہے اور اس کے بعد روزانہ شام 5 بجے سے رات 9 بجے تک گلشن اقبال کے علاقے میں اپنی والدہ کے ہاتھ سے تیار کردہ لذیذ پاستا فروخت کرتا ہے۔
احمد کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پہلے معاشی کرائسس آئے پھر والد نہ رہے تو مجھے ہی گھر سنبھالنا تھا اور گھر والوں کا سہارا بننا تھا۔ یہی جذبہ میرے کام آیا اور میں نے یہ کام شروع کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احمد کی والدہ کے ہاتھ سے گھر میں تیار کیے گئے لذیذ پاستا کے دلداہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ نہ صرف پاستا شوق سے کھانے آتے ہیں بلکہ نوجوان کے جذبہ کو بھی سراہتے ہیں۔
احمد جیسے نوجوان نہ صرف ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں بلکہ یہ وہ ستارہ ہیں جو اپنے روشن مستقبل کے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی تگ ودو کر رہا ہے۔