بیسویں صدی کی ممتاز ناول نگار ورجینیا وولف کا یہ تذکرہ ان کی موت کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ موت جو غیرفطری تھی یا جس کے لیے ورجینیا وولف نے 28 مارچ کا انتخاب کیا تھا۔ ناول نگار نے 1941ء میں خود کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔
خود کشی کے بعد ورجینیا وولف کی آخری تحریر سامنے آئی جس میں وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر لکھتی ہیں، ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘
وہ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینیا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینیا وولف کو دنیا میں بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔
ورجینیا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ورجینیا وولف نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینیا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ابھی انھوں نے نام اور پہچان بنانے کا آغاز ہی کیا تھا کہ ان والد جو خود بھی ایک قلم کار تھے، ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ والدہ کے بعد اپنے والد کو کھو دینے والی ورجینیا وولف کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور بہت سی تکلیف دہ اور دل آزار باتیں انھیں برداشت کرنا پڑیں جن کا ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، اور مایوسی نے انھیں اپنی جان لینے پر آمادہ کرلیا۔ ورجینا وولف دریا میں چھلانگ لگانے سے پہلے بھی متعدد مرتبہ خود کُشی کی کوششیں کرچکی تھیں۔
اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِعام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ ورجینیا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔
ورجینیا وولف کا خود کشی سے قبل شوہر کے نام آخری پیغام بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس کا ایک حصّہ یہ بھی ہے۔ انھوں نے لکھا تھا:
پیارے…
مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔
تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔
اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔
میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!
انھوں نے 1913ء میں معروف ادبی نقاد لیونارڈ وولف سے شادی کی تھی۔ ان کی تحریر سے اندازہ لگایا گیا کہ خود کشی کے روز وہ انتہائی مایوسی کا شکار تھیں اور اپنے حواس کھو بیٹھی تھیں۔ ورجینیا نے اپنی جیبوں میں پتھر بھر لیے تھے تاکہ ان کا مردہ جسم دریا کی تہ میں اتر جائے۔ ان کی لاش تین ہفتوں بعد ملی۔ ورجینیا کی خواہش کے مطابق اس کے جسم کو جلا کر راکھ کردیا گیا اور یہ راکھ خانقاہ میں بکھیر دی گئی۔