اشتہار

شادی ہو گی تو خاندان میں!

اشتہار

حیرت انگیز

عمران کی والدہ بیگم عرفان نے حنا کو اُس کے ایم ڈی کے بیٹے کے ولیمے میں دیکھا۔ حنا کے شخصی وقار، وضع داری، خوش اخلاقی، سادگی اور تہذیبی رویے نے اُن کا دل موہ لیا۔ اس قدر کہ پہلی ہی ملاقات میں حنا کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا، اور دوسرے ہی دن حنا کے گھر اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر چلی گئیں۔

حنا کے لیے اُس کے کولیگ عمران کا رشتہ آنا ہی غضب ہو گیا۔ بیگم عرفان بہت آس لگا کر گئی تھیں کہ ہاں میں جواب لے کر لوٹیں گی۔ لیکن حنا کی دادی نے صاف انکار کر دیا کہ ”ہمارے خاندان کا رواج نہیں بیٹی باہر بیاہنے کا۔“

بیگم عرفان سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک اور بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔اپنے طور پر اُنہوں نے قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن حنا کی دادی نے نہ صرف سختی سے انکار کردیا بلکہ حنا کو ملازمت سے روکتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ”معلوم ہوتا کہ یہ اپنا بَر تلاش کرنے کے لیے نوکری کرے گی تو کبھی اس کے باپ سے اجازت سے سفارش نہ کرتی اس نوکری کی۔“ یہ فرمان سن کر بیگم عرفان دم بخود رہ گئیں۔ ایسی بے اعتباری؟ معصوم حنا تو بغیر جرم کیے معتوب قرار پائی تھی۔

- Advertisement -

بیگم عرفان نے کہا بھی، ”حنا میری یہاں آمد سے قطعاً لا علم ہے۔ بس کل احتشام صاحب کے گھر کی تقریب میں یہ میرے دل کو کچھ ایسی بھائی کہ پل کی پل میں اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا اور رشتہ لے کر چلی آئی۔“ لیکن کوئی بھی بیگم عرفان کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی تھا۔ وہ نامراد اپنے گھر لوٹ گئیں۔

حنا اگر دادی کے عتاب کا نشانہ بن رہی تھی تو اُس کی امی بھی خراب تربیت کے طعنے سُن رہی تھیں۔ یہی نہیں حنا کی دادی نے فون کر کے اپنی بڑی بیٹی صادقہ بیگم کو ساری داستان سنا دی۔ وہ تو پہلے ہی حنا سے بہت خار کھاتی تھیں کہ صورت اور ذہانت میں حنا اُن کی بیٹیوں سے بڑھ کر تھی۔ رہی بات سیرت کی تو اس میں بھی حنا کا پلڑا بھاری تھا۔ اپنی بیٹی کی ہم عمر حنا کی تعریفیں سُن کر صادقہ بیگم کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے تھے۔ اب اُنہیں اس لڑکی کو نیچا دکھانے کا موقع مل گیا۔ ماں کی سنائی داستان میں رنگ آمیزی کر کے صادقہ بیگم نے اسے عام کرنا شروع کر دیا۔

نکلی ہونٹوں، چڑھی کوٹھوں کے مصداق اگلے ہی دن خاندان بھر میں یہ بات پھیل گئی کہ حنا کی خواہش پر غیر خاندان کی عورت اپنے بیٹے کا رشتہ اُس کے لیے لائی تھی لیکن اماں نے سختی سے انکار کر دیا۔ جس پر حنا نے خوب شور مچایا۔“

اگلے دن حنا کی دادی پھپیوں، امی، ابو اور خاندان کے دو تین بزرگوں کی موجودگی میں ایک اجلاس ہُوا۔ دور دور تک نظر دوڑائی گئی لیکن خاندان بھر میں حنا کے جوڑ کا کوئی نظر نہ آیا۔ تب ازراہِ عنایت صادقہ بیگم نے اپنے تایا زاد اور جیٹھ نورُ الدّین کا رشتہ پیش کر دیا جو بقول اُن کے نہایت مناسب رشتہ تھا۔ نورُ الدّین صاحب کو حنا کمسنی سے ہی تایا ابّا کہ کر مخاطب کرتی تھی۔ نور الدّین چار بیٹیوں اور پانچ بیٹوں کو بیاہ چکے تھے۔ اُن کے سارے بچّے بیرونِ ملک مقیم تھے اور ہزار گز کا بنگلہ اُنہیں کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ ایسے میں صادقہ بیگم نے حنا سے شادی کی پیشکش کی۔ لمحہ بھر کو تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ لیکن صادقہ بیگم کے اصرار پر تو اُن کی باچھیں کھل گئیں۔ گویا اُن کی لاٹری نکل آئی ہو۔

ادھر حاجرہ بیگم نے بیٹے کو کچھ ایسے خدشات سے خوفزدہ کر دیا کہ وہ بھی ماں اور بہن کے حمایتی بن گئے۔ یوں آناً فاناً نورُ الدّین کا رشتہ منظور کر لیا گیا۔ حنا حیران تھی کہ بن کہے، حنا کے دل کی بات جان لینے والی ماں نے اُس کی خاموش نگاہوں کے پیغام کو نظر انداز کر دیا تھا، جو چُپ کی زبان میں نوحہ کناں تھیں۔

ماں کا یہ طرزِ عمل دیکھ کر حنا نے چپ سادھ لی۔ ورنہ اُسے یقین تھا کہ اور کوئی بولے یا نہ بولے امّی ضرور میرے حق میں نہ صرف بولیں گی بلکہ اپنے مؤقف پر ڈٹ جائیں گی۔ لیکن وہ تو چپ کی چادر تانے اُس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور پھر ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی رواجوں کی سولی پر چڑھ کر باطن کی موت مر گئی۔

خوب دھوم دھام سے شہنائیوں کی گونج میں حنا دلہن بن کر اُس آنگن میں آگئی جہاں وہ بچپن میں آتی تو اس کی معصوم شرارتوں پر ہنستے ہوئے نورُالدّین کہتے”ہماری بیٹی بہت پیاری ہے، اللہ نصیب اچھے کرے۔ بھئی میں‌ تو اس کو اپنے راشد کی دلہن بناؤں گا۔“ لیکن راشد کو تو صادقہ چچی نے ایسا قابو کیا کہ وہ اُن کی بد مزاج عارفہ کو اپنانے کی ضد کر بیٹھے اور بالآخر اس کو بیاہ کر اپنے ساتھ کنیڈا لے گئے۔ اور حنا کے نصیب کہ اپنی بہو بنانے کے آرزومند نورُ الدّین اس کو اپنی دلہن بنا کر لے آئے۔ صادقہ پھپو کی پاٹ دار آواز نے حنا کو ماضی سے حال میں لا کھڑا کیا۔ وہ حنا کو اُس کی خوش بختی کی نوید سنا رہی تھیں کہ ”ایک ہزار گز کے بنگلے پر راج کرے گی ہماری بیٹی۔“ حنا اپنی بے بسی پر رونے کے بجائے دل ہی دل میں ہنس دی۔ ”اپنی عزتِ نفس تاراج ہونے پر بھی کوئی راج کرتا ہے بھلا؟“ اُدھر پھپو کا بیانِ عالمانہ جاری تھا کہ ”بھائی جان! ہماری بیٹی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیجیے گا۔ اُس کے عیش میں کبھی کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ ہم نے اپنی پھول سی بیٹی آپ کے حوالے کی ہے، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔“

”فکر نہ کرو صادقہ یہ لو ابھی تمہارے سامنے اس گھر کی ساری چابیاں حنا کے حوالے کرتا ہوں۔ “ یہ سن کر صادقہ پھپھو گھبرا کر جلدی سے بولیں ”ارے نہیں بھائی جان! یہ کیا کر رہے ہیں۔ ابھی یہ اتنی سمجھدار کہاں ہے، سارے تالے چابیاں اپنے پاس ہی رکھیے۔ خیر سے آپ کے بچّوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔“ یہ سن کر نورُ الدّین نے حنا کی ہتھیلی پر رکھی چابیاں اُٹھائیں اور واپس اس کی جگہ پر رکھ دیں۔ تب صادقہ پھپو نہال ہو گئیں۔

حنا خود کو اس نئے بندھن کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی۔ سفاک ہی سہی لیکن یہ بہت بڑی حقیقت تھی کہ اب نورُ الدّین اُس کے تایا ابّا نہیں شوہر تھے اور بقول صادقہ پھپو اُن کی تابعداری حنا پر فرض تھی۔ سو حنا نے بھی اپنے فرائض نباہے اور خوب نباہے۔ اگلے ہی دن نورُ الدّین کی چاروں بیٹیوں سے فون پر بات کی۔ وہ بیٹیاں جنہیں حنا بالترتیب بڑی آپا، منجھلی آپا، چھوٹی آپا اور باجی کہتی تھی۔ اب اُن سے مادرانہ شفقت سے بات کرنا اُس کی ذمہ داری تھی۔ حنا نے اپنی سوتیلی بیٹیوں کو ملول پایا۔ کوئی بھی خوش نہ تھی، کتنا ارمان تھا اُن چاروں کو حنا کو اپنی بھابھی بنانے کا لیکن ہر بھائی کی دفعہ صادقہ چچی نے اپنی بیٹی، بھانجی، بھتیجیوں اور ایک نواسی کو پیش کر دیا۔ چاروں بہنیں دل مسوس کر رہ گئیں کہ ابّا کبھی اپنی لاڈلی بھاوج کی بات رد نہیں کرتے تھے۔ معلوم نہیں ابّا کو اُن کا خوشامدی لہجہ بھاتا تھا یا پھر وہ صادقہ چچی کو بہت دور اندیش سمجھتے تھے۔

بڑی آپا نے حنا کے دکھ کو بہت توانائی سے محسوس کیا اور کیوں نہ کرتیں وہ اُن سے پورے بیس برس چھوٹی تھی۔ حنا سے بات کر کے وہ بہت اُداس تھیں۔ یہ پیاری سی بچی اب اُس کی ماں تھی۔ سوتیلی ہی سہی، کہلائیں گی تو وہ اب حنا کی بیٹی۔

حنا نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا، میکے بھی بہت کم جاتی تھی۔ اُس کو اپنی ماں سے بہت گِلے تھے۔ وہ اُس پر محبت نچھاور کرتیں تو اس کا دل بین کرنے لگتا۔ اس کی فریادی آنکھیں ماں سے سوال کرتیں، ”اب کیوں امّی؟ جب وقت تھا تو آپ کی محبّت کہاں جا سوئی تھی؟ جب مجھے آپ کی ضرورت سب سے زیادہ تھی تب آپ مجھے نظر انداز کر رہی تھیں تو پھر اب کیوں؟“ اور ماں! جو کہے بغیر اولاد کے دل کی بات جان لیتی ہے کل کی طرح آج بھی چپ کی مہر لگائے اس شعر کی تفسیر بنی نظر آتی کہ
یہ ہم ہی ہیں جو تیرا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

کئی ہفتوں سے حنا میکے نہیں گئی تھی۔ کوئی دو ماہ بعد اپنے شوہر کے ساتھ حنا نے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ وہاں اپنی امی کو دیکھ کر اُس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ کیسا شاداب چہرہ مرجھا کر رہ گیا تھا۔ نور الدّین ساس سسر کو دیکھ کر آگے بڑھے۔ حنا کے سلام کے جواب میں ابو نے بہت ساری دعائیں دیں تو سُن کر وہ ہنس دی۔ عجب بے بس سی ہنسی تھی کہ پہلی بار وہ خود کو اپنی بیٹی کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ ابو کو وہاں اپنے کولیگ نظر آئے تو وہ اُن کی پکار پر وہاں چلے گئے اور حنا نہ چاہتے ہوئے بھی نورُ الدّین کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ اتنی دیر میں بیگم عرفان بھی عرفان صاحب کے ساتھ آگئیں۔ اُن کی نظر حنا کی امی پر پڑی تو وہ اُن سے ملنے چلی آئیں۔ حنا کی امی اُن سے بہت محبت سے ملیں۔ اچانک بات کرتے کرتے اپنے شوہر کے ساتھ آتی حنا پر بیگم عرفان کی نظر پڑی تو اُن پر تو گویا سکتہ سا طاری ہو گیا۔ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر وہ تأسف بھری نظروں سے حنا کو دیکھ رہی تھیں۔ کافی دیر تک تو وہ کچھ بول ہی نہ سکیں۔ حنا کی نظر اُن پر پڑی تو اُس نے بیگم عرفان کو سلام کیا۔ اُنہوں نے اشارے سے حنا کو اپنے پاس بلایا۔ اُس کی خیریت دریافت کر کے اُنہوں نے حنا کی امی سے شکوہ کیا ”میرے عمران میں کیا کمی تھی؟ کون سی برائی تھی؟ عمر میں بھی زیادہ فرق نہیں، کیسا سجتے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ۔ ہیرا مٹی میں رُل گیا۔“

تب حنا کے امی کی چپ کی مہر بھی ٹوٹ گئی اور وہ تلخی سے بولیں،”بہت بڑی کمی اور بُرائی تھی عمران میں۔ وہ غیر خاندان کا تھا۔“

”ماشاء اللہ باشعور خاتون ہیں، کیسی باتیں کر رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ ماں ہیں بہن! پھر آپ نے کیوں ظلم ڈھانے دیا اپنی بیٹی پر۔“

”اگر اس وقت میں اپنی لاڈلی بیٹی پر ظلم نہ ڈھاتی تو وہ حشر برپا ہوتا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔“ حنا کی امی کہتے کہتے رو دیں۔

”اچھا! آپ بتائیے تو سہی کیا بات تھی، پھر میں سوچ بھی لوں گی۔ “ بیگم عرفان نے اُن کے ہاتھ تھام لیے۔

”میری چھوٹی بیٹی اپنی منجھلی پھپو کے بیٹے کی منکوحہ ہے۔ میرے انکار کی صورت میں بغیر رخصتی کے طلاق کا پروانہ اُس کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا۔میری منجھلی بیٹی اپنی چھوٹی پھپو کے دیور سے منسوب ہے۔ اُس کی منگنی ٹوٹنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی اور رہ گئی حنا تو اُسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا کہ اُس کے لیے غیر خاندان سے رشتہ آیا تھا، وہ بھی اُس کے ساتھ دفتر میں‌ کام کرنے والے لڑکے کا۔ بیگم عرفان چپ چاپ اُن کی شکل تکے گئیں اور جب بولیں تو بس اتنا ”یقین نہیں آرہا، آج کے ترقی یافتہ دور کے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں بھی ایسی باتیں ہو سکتی ہیں۔“

”ہو سکتی نہیں، ہوتی ہیں مسز عرفان۔ اُن گھرانوں میں جہاں رسم و رواج کو خواہ وہ کتنے ہی فرسودہ کیوں نہ ہوں اپنی عزّت بنا لیا جاتا ہے۔ پھر اس کی سربلندی کی خاطر خواہ کوئی جیتے جی مر جائے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے گھرانے میں خاندان میں شادی کرنے کو اعزاز سمجھا جاتا ہے، چاہے اس ظلم کے نتیجے میں کوئی عمر بھر آزار میں مبتلا رہے جیسا کہ میری حنا ہے۔“

حنا اپنی امی کے گلے لگی چپ چاپ آنسو بہا رہی تھی۔ آج ماں سے ہر گلہ ختم ہو گیا تھا۔ اور بیگم عرفان سوچ رہی تھیں خاندان میں بیٹی بیاہنے کا اصرار کرنے والوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ حنا کے ساتھ اس سے تیس سال بڑی عمر کے شوہر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے؟

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں