ہفتہ, دسمبر 7, 2024
اشتہار

خلائی مخلوق کے بارے میں وہ نظریات جو آپ کو دنگ کردیں

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا بھر کے سائنس دان اور ماہر فلکیات کہیں نہ کہیں موجود خلائی مخلوق کا کھوج لگانے کی کوششوں میں ہیں، اتنی بڑی کائنات میں آخر کہیں نہ کہیں تو زندگی موجود ہوگی، تو پھر ہم اب تک اس کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟

اگر اس کائنات میں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی ہے، تو آخر وہ کہاں ہے اور اب تک ہمارا اس سے رابطہ کیوں نہیں ہوسکا؟

یہ مشہور سوال دنیا کا پہلا جوہری ری ایکٹر تیار کرنے والے اٹلی کے مشہور طبیعات دان انریکو فرمی نے پوچھا تھا، سب کہاں ہیں؟

- Advertisement -

لیکن اس کا کوئی جواب آج تک نہیں مل سکا۔

ویسے تو سازشی نظریات ماننے والوں کی بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہماری دنیا میں اکثر و بیشتر اڑن طشتریاں اترتی رہتی ہیں، لیکن ان کی خبروں کو چھپایا جاتا ہے۔

تو آج ہم بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، کہ ہم اب تک خلائی مخلوق سے ملاقات کیوں نہیں کر سکے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے سنہ 2009 میں لانچ کی جانے والی کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ہماری زمین کے ارد گرد یعنی ہماری کہکشاں کے اندر سینکڑوں سیارے دریافت کیے۔

اس دریافت کی بنیاد پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں کے اندر کم از کم کھربوں کی تعداد میں سیارے موجود ہیں، اور کائنات میں ایسی اربوں کہکشائیں موجود ہیں۔

فرض کیا جائے کہ ہماری کہکشاں میں موجود 10 ہزار میں سے کسی ایک سیارے پر بھی زندگی موجود ہے، تب بھی کم از کم 5 کروڑ ممکنہ سیارے ایسے ہوسکتے ہیں جہاں زندگی موجود ہونی چاہیئے۔

ہماری زمین، کائنات میں ہونے والے ایک بڑے دھماکے یعنی بگ بینگ کے 9 ارب سال بعد تشکیل پائی، فرض کرتے ہیں کہ اس طویل عرصے کے دوران ہم سے پہلے کسی سیارے پہ زندگی جنم لے چکی ہو۔

اس سیارے کی مخلوق رفتہ رفتہ ارتقائی مراحل سے گزر کر ایک جدید مخلوق بنی ہو اور اس نے ہم جیسی یا ہم سے بھی بہتر ٹیکنالوجی تیار کرلی ہو۔

گو کہ آج زمین پر جتنی بھی ٹیکنالوجی موجود ہے وہ گزشتہ صرف 100 سال کے عرصے میں سامنے آئی، لیکن چلیں ہم اس غائبانہ خلائی مخلوق کو رعایت دیتے ہیں کہ اسے اپنی ٹیکنالوجی کو جدید ترین سطح پر لانے میں کئی لاکھ سال لگے، تو اب تک اس مخلوق کو ٹیکنالوجی کے ذریعے کم از کم ہماری پوری کہکشاں تو فتح کرلینی چاہیئے تھی۔

اور مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو، اس خلائی مخلوق نے توانائی پیدا کرنے والے سیارے خلا میں چھوڑ رکھے ہوں، یا پھر ایسے فن پارے تخلیق کیے ہوں جو خلا میں معلق ہوں اور ہمیں چمکتے ستاروں اور مختلف خلائی مظاہر کی صورت میں دکھائی دیتے ہوں۔

تب تو ایسی مخلوق سے رابطہ کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا کہ ان کے خارج کردہ سگنلز خلا میں جابجا موجود ہوں گے، لیکن پھر بھی ہم انہیں ڈھونڈنے میں ناکام ہیں۔ آخر کیوں؟

اس کا سب سے آسان اور ممکنہ جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ نہایت ترقی یافتہ، ذہین اور جدید ٹیکنالوجی کی حامل اس مخلوق نے کہکشاں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہو اور انہوں نے مصنوعی طریقے سے ایک خلائی خاموشی طاری کر رکھی ہو تاکہ کسی ممکنہ دشمن سے بچ سکیں، اسی میں ان کی بقا ہے۔

لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ایسی جدید مخلوق لاکھوں سال پہلے خود ہی مٹ چکی ہو کیونکہ ان کی تیار کردہ ٹیکنالوجی ان کے قابو سے باہر ہوگئی ہو اور اس نے پورے سیارے کو تباہ کردیا ہو۔

یا پھر ایک عام سا خیال، کہ ممکن ہو وہ مخلوق اتنی ذہین نہ ہو کہ اتنی ترقی کرسکے، یا پھر واقعی ہم ہی اس کائنات کی واحد تہذیب ہوں۔

بہت سی ترقی کرلینے کے باوجود ہم اب تک سیاروں اور ستاروں کی بہت معمولی سی تعداد ہی کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات حاصل کرسکے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے ہم غلط سمت میں دیکھ رہے ہوں۔

ایک اور دلچسپ نظریہ یہ بھی ہے کہ، ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے جان لیا ہو کہ زندگی صرف معلومات کے پیچیدہ نظام کا نام ہے جس کے لیے جسامت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

جیسے زمین پر ایجاد کیا گیا اسٹیریو سسٹم آہستہ آہستہ چھوٹا ہو کر ایک معمولی سے آئی پوڈ کی صورت ہاتھوں میں سما گیا، ویسے ہی خلائی مخلوق نے بھی خود کو مائیکرو اسکوپک لیول پر منتقل کرلیا ہو، ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں خلائی مخلوق سے بھری پڑی ہو لیکن ہمیں ان کی موجودگی کا ادراک نہیں۔

ایک اور اچھوتا نظریہ جاننا بھی آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کے دماغ میں موجود خیالات دراصل خلائی شے ہوں۔ وہ ایسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ظاہری جسم تو مرجاتا ہے لیکن ہمارے آئیڈیاز اور خیالات، زمین پر موجود ایجادات، کتابوں اور فن کی صورت میں زندہ رہتے ہیں اور یہ اپنے اندر پوری ایک دنیا، ایک اچھوتی دنیا رکھتے ہیں۔

ممکن ہے کہ خلائی مخلوق نے خود کو ارتقائی مراحل سے گزار کر ایسے زندہ رہنے کا راز جان لیا ہو۔

ان میں سے کون سا نظریہ حقیقت کے کتنا قریب ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید ہم کبھی خلائی مخلوق کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوجائیں، یا پھر ہم یہ ادھوری خواہش لیے ختم ہوجائیں اور خلائی مخلوق کا راز کبھی نہ جان سکیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں