اشتہار

کرائم تھرلر سیریز دھاڑ: سائیکو شنکر کون ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز ہونے والی کرائم تھرلر بھارتی سیریز ’دھاڑ‘ ایک سائیکو شنکر کی کہانی ہے جو کہ بھارت میں بدنام زمانہ سیریل کلر ریپسٹ سے مشہور ہے۔

کرائم تھرلر سیریز دھاڑ کو ٹائیگر بے بی اور ایکسل انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا، اس سیریز کی ہدایت کاری ریما کاگتی اور روچیکا اوبرائے نے کی۔

اس سیریز میں جے پور جیسے بڑے شہروں میں تنگ اپارٹمنٹس سے لے کر چھوٹے قصبوں میں وسیع و عریض مکانات کے ساتھ ساتھ لمبی، گھومتی ہوئی سڑکوں میں قاتل کو ڈھونڈنے کی کہانی ہے۔

- Advertisement -

اس سیریز میں سماجی برائیوں جیسے ذات پرستی، جنس پرستی، اور شادی کے لیے دباؤ کے ساتھ ساتھ غیر فعال خاندانی حرکیات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

سیریز ’دھاڑ‘میں سوناکشی سنہا نے پولیس اہلکار کا کردار نبھایا ہے، جس میں وہ 27 خواتین کو قتل کرنے والے سیریل کلر ریپسٹ کو ڈھونڈتی نظر آئیں ہیں۔

سائیکو شنکر کون ہے؟

ایم جے شنکر جسے سائیکو شنکر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تمل ناڈو کے سیلم ضلع کے ایڈاپڈی میں کنیا پٹی کا ایک بدنام زمانہ مجرم تھا، جے شنکر ایک ٹرک ڈرائیور تھا اور اس نے کئی بھارتی زبانیں سیکھی تھیں، جن میں کنڑ، ہندی اور تیلگو بھی شامل تھیں، جس  کا استعمال اس نے جرم کے دوران اپنے فائدے کے لیے کیا۔

شنکر پر کم از کم 15 افراد کی عصمت دری اور قتل کرنے کا الزام تھا، جو جسم فروشی کے کاروبار سے وابستہ تھیں۔

جے شنکر کو 2009 میں ایک افسر کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ شنکر کے خلاف دو درجن سے زائد ایسی ہی شکایات درج کی گئی تھیں۔

2011 میں شنکر ڈرامائی طور پر پولیس کی وردی پہن کر جیل سے فرار ہوا اور بعد میں اس پر کرناٹک کے بیلاری ضلع میں 6 خواتین اور دھرما پوری ضلع میں ایک مرد اور ایک لڑکے کے قتل کا الزام لگایا گیا۔

شنکر نے بنگلورو کی سنٹرل جیل میں 10 سال کی سزا کاٹنے کے دوران قید تنہائی کے دوران استرا کے بلیڈ سے خودکشی کرلی تھی۔

اس واقعے پر پولیس نے دیگر قیدیوں کے حملے کے امکان کو مسترد کردیا تھا تاہم واقعے کی تحقیقات جاری تھی، جے شنکر کی زندگی اور جرائم پر مبنی فلم ’’سائیکو شنکر‘‘ 2017 میں ریلیز ہوئی تھی۔

جیل سے پہلی بار فرار

12 خواتین کے ساتھ وحشیانہ عصمت دری اور قتل کرنے کے بعد سائیکو شنکر نے ایک پولیس افسر پر حملہ کیا لیکن وہ معجزانہ طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا جس کے بعد فوری طور پر قریبی پولیس اسٹیشن کو واقعے کی اطلاع دی گئی اور آخر کار پولیس اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گئی۔

حراست میں جے شنکر نے 2008 سے یہ گھناؤنے جرائم کرنے کا اعتراف کیا، 2008 اور 2009 کے درمیان اس پر عصمت دری اور قتل کے 13 مقدمات کا الزام لگایا گیا تھا۔

17 مارچ 2011 کو جے شنکر کو عدالت میں پیش کیا گیا، لیکن اگلے دن جب دو پولس اہلکاراسے واپس جیل لے جا رہے تھے تو شنکر انہیں بہلا پھسلا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، یہ واقعہ اس قدر شرمناک تھا کہ دونوں اہلکار نے خودکشی کر لی تھی۔

جیل سے دوسری بار فرار

جے شنکر کے گھناؤنے جرائم اس کے فرار ہونے کے بعد ریاست کرناٹک میں پھیل گئے تھے، کرناٹک میںاس نے ایک ماہ میں مزید 10 خواتین کی عصمت دری اور قتل کیا، پولیس اس کے فون کو دہلی اور ممبئی تک ٹریس کرنے میں کامیاب رہی، لیکن جے شنکر اپنا فون گاڑی میں چھوڑ کر ان سے بچنے میں کامیاب ہوگیا، اس کے بعد وہ کرناٹک میں بھی باز نہ آیا اور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ایک عورت کی عصمت دری کرنے کی کوشش میں پکڑا گیا۔

بنگلور جیل بھیجے جانے کے بعد جے شنکر کا نفسیاتی علاج ہوا جب پولیس کو پتہ چلا کہ اس کا اپنی مجرمانہ جبلت پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، اپنے ایک عدالتی دورے کے دوران، جے شنکر نے ایک مختلف سیل میں منتقل کرنے کی درخواست کی اور بعد میں ڈپلیکیٹ چابی کا استعمال کرتے ہوئے فرار ہو گیا۔

مار دھاڑ سے بھرپور فلم ٹیکن تھری کا نیا ٹریلر ریلیز

دوسری بار فرار ہونے کے دوران جے شنکر نے اپنی ٹانگ گنوا دی لیکن پھر بھی فرار ہونے میں کامیاب رہا، لیکن پولیس نے بنگلور کے تمام اسپتالوں کو ہائی الرٹ جاری کیا۔ آخر کار جب شنکر موٹر سائیکل پر دوسرے شہر جانے کی کوشش کر رہا تھا تو اسے اس وقت گرفتار کرلیا گیا۔

 اسے ایک اعلیٰ حفاظتی جیل میں 24/7 سی سی ٹی وی کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ اگرچہ جے شنکر نے دوبارہ فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا اور اپنی موت تک حراست میں رہا۔

شنکر کی موت

فروری 2018 میں اس نے ہیئر ڈریسر سے حاصل کیے گئے بلیڈ سے خودکشی کر لی۔ عملے نے اسپتال پہنچایا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔

تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ ایک بظاہر نارمل آدمی جس کی بیوی اور تین بیٹیاں تھیں، ایک بدنام زمانہ سیریل ریپسٹ اور قاتل کیسے بنا؟

 یہ کیس ایک یاد دہانی ہے کہ اسے طرح کے واقعات عام فیملی میں کبھی بھی ہوسکتا ہے اس لیے ہمیں اجنبیوں کے بارے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں