عدالتوں میں ہونے والی حالیہ تقرریاں تبادلے اور دیگر معاملات کے حوالے سے یہی کہا جاتا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد لوگوں کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، تاکہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا سدباب کیا جاسکے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے کی میزبان ماریہ میمن اپنی رپورٹ میں ان اقدامات سے متعلق اہم رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناظرین کو ہوشربا حقائق سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اصل زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت پاکستان کی مختلف چھوٹی بڑی عدالتوں میں 24 لاکھ سے زیادہ مقدمات التوا کا شکار ہیں۔
اگر عدل کے علمبرداروں کو عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانی ہے تو اس مسئلے کو لازمی اہمیت دیتے ہوئے حل کرنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ایک تقریب کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے اس اہم موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس صورتحال کے سد باب کیلیے زور دیا تھا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام عدالتوں میں مجموعی طور پر 2اعشاریہ 4ملین مقدمات زیر التواء ہیں جن میں دو ملین مقدمات وہ ہیں جو پاکستان کی صلعی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ ہی ضلعی عدالتوإں کا ہے انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں میں یومیہ 4ہزار مقدمات روز فائل ہوتے ہیں جبکہ ضلعی عدالتوں میں روزانہ 70 ہزار مقدمات سماعت کیلیے لائے جاتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ججوں کی تعداد کے جوالے سے کہا کہ مقدمات کی مناسبت سے اگر ججوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے تو سول کورٹ سے کر سپریم کورٹ تک 4 ہزار ججز کی گنجائش ہے جس میں سے 3 ہزار ججز کام کررہے ہیں باقی ایک ہزار کی اب تک تقرریاں ہی نہیں کی جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی مجموعی آبادی 231 ملین ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر دس لاکھ افراد پر صرف 13 جج تعینات ہیں۔