تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف آج ریاض میں مصروف دن گزاریں گے

وزیراعظم شہباز شریف جو کل سعودی عرب پہنچے ہیں...

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

پاکستان میں خواتین بینک اکاؤنٹس کم کیوں؟

75 سال گزر گئے لیکن پاکستان میں خواتین کو برابری کے حقوق نہ مل سکے، عورتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک پر عالمی رپورٹس میں پاکستان کی ریٹنگ اچھی نہیں رہی، خواتین ملکی آبادی کا 49 فی صد ہیں، لیکن اس کے باوجود بینک اکاؤنٹس میں ان کا حصہ صرف 7 فی صد ہے۔

ملک میں خواتین کے مقابلے میں مرد حضرات 34 فی صد بینک اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں، جب کہ پاکستان کے مالیاتی نظام میں مجموعی طور پر بالغ افراد کی آبادی کا 21 فی صد حصہ بینک اکاؤنٹ کا حامل ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2017 تک پاکستان میں خواتین کی آبادی میں بینک اکاؤنٹ رکھنے والی خواتین کا تناسب صرف سات فی صد تھا۔

اگر اس حوالے سے خطے کے ممالک کا تناسب دیکھا جائے تو انڈیا میں خواتین اپنی آبادی کے تناسب سے 76 فی صد اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں، سری لنکا میں یہ تعداد 73 فی صد، بنگلادیش میں 36 فی صد اور نیپال میں 41 فی صد ہے۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے مقابلے میں اسلامی ملکوں میں بھی خواتین کا مالیاتی نظام میں حصہ بہت زیادہ ہے، جو ایک حیران کن بات ہے، اسی طرح ورلڈ بینک اور ایشین بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کا ملازمتوں میں حصہ صرف 24 فی صد ہے اور ایک فی صد خواتین کاروبار کی ملکیت رکھتی ہیں۔ ایشیا میں خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے یہ شرح سب سے کم ہے۔

اگر ملک کے مالیاتی نظام میں کام کرنے والے افراد کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی خواتین کی تعداد قلیل ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق خواتین بینکوں میں کام کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد کا 13 فی صد ہیں، 15 فی صد ہیڈ آفس اسٹاف کا حصہ ہیں، اور 12 فی صد برانچوں میں کام کرنے والے اسٹاف کا حصہ ہیں، جب کہ برانچ لیس بینکنگ اسٹاف کا یہ صرف ایک فی صد ہیں۔

پاکستان کے برعکس سعودی عرب میں آبادی کے اعتبار سے خواتین اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد 58 فی صد ہے، ملائیشیا میں 82 فی صد ہے، اور ایران اور ترکی میں بالترتیب 92 اور 54 فی صد ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی مالیاتی نظام میں کم تعداد کی سب سے بڑی وجہ تو ہمارا معاشرتی نظام ہے، جو خواتین کے مالیاتی تو کیا کسی بھی شعبے میں آنے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ ذہنیت شہری مڈل کلاس میں بہت زیادہ ہے، جہاں خواتین کو صرف گھریلو کام تک محدود سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں پچھلی کچھ دہائیوں سے خواتین کی ایک بڑی تعداد ملازمتوں کے علاوہ چھوٹے کاروباری پیشے مثلاً آئی ٹی، فیشن، تعلیم، آن لائن کاروبار اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔ خواتین کی بہتر تعلیم اور تربیتی اداروں میں اضافے سے ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے مختلف شعبوں میں تعداد کو بتدریج بڑھایا جا سکتا ہے اور اس طرح خواتین ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی میں اپنا کردار زیادہ بہتر طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملازمت پیشہ اور کاروباری خواتین کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کر نے کے لیے حکومتی سطح پر ان کی سرپرستی کے علاوہ معاشرے میں وہ ماحول بھی پیدا کرنا ہوگا، جس میں خواتین کو مساوی حقوق کے حوالے سے یکساں مواقع کی ضمانت مل سکے۔

Comments

- Advertisement -