اشتہار

ورلڈ کپ 2007، کوچ وولمر کی اچانک موت اور انضمام کے شاندار کیریئر کا آنسو بھرا اختتام ثابت ہوا

اشتہار

حیرت انگیز

ٓآئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کا نواں ایڈیشن آسٹریلیا کی ورلڈ چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک، پاکستانی کوچ باب وولمر کی اچانک موت، گرین شرٹس کپتان کی آنسوؤں کے ساتھ کرکٹ سے رخصتی کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

کرکٹ کے سب سے بڑے میلے آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کا نواں ایڈیشن پہلی بار دو بار کے عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی سر زمین پر ہوا جس میں ریکارڈ 16 ٹیموں نے شرکت کی۔ اس ایونٹ میں جہاں آسٹریلیا نے اپنی کرکٹ پر حکمرانی جاری رکھتے ہوئے ورلڈ چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی وہیں کچھ سانحات اور حادثات نے اس ایونٹ کو یادگار بنا دیا۔

ورلڈ کپ سے جڑے تنازعات جو 16 سال بعد بھی ذہنوں میں تازہ ہیں:

یہ ورلڈ کپ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا کیونکہ اس سے قبل دو ایونٹ کی فائنلسٹ ٹیمیں اس میگا ایونٹ میں اپنی ناقص ترین کارکردگی کے باعث پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوگئیں لیکن پاکستان کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت اس لیے رہا کہ آئرلینڈ جیسی بے بی ٹیم سے غیر متوقع ہار کے بعد کوچ باب وولمر کی اچانک موت اور میگا ایونٹ سے یوں ذلت آمیز رخصتی پر کپتان انضمام الحق کے خوشیوں بھرے 17 سالہ ون ڈے کرکٹ کیریئر کا آنسوؤں بھرا اختتام ہوا جب کہ گرین شرٹس کو وولمر کی موت کی تحقیقات کے سلسلے میں بھی شامل تفتیش کیے جانے کے باعث کھلاڑی ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے۔

- Advertisement -

ورلڈ کپ 2007 13 مارچ سے 28 اپریل کے دوران جرائر غرب الہند میں کھیلا گیا جس میں پہلی بار ریکارڈ 16 ٹیموں نے شرکت کی اور ایونٹ میں مجموعی طور پر کھیلے گئے میچز کی تعداد نے بھی نصف سنچری مکمل کی کہ فائنل سمیت مجموعی طور پر 51 میچز کھیلے گئے تاہم میگا ایونٹ کے آغاز کے 5 ویں روز ہی پاکستان کے ہیڈ کوچ کی اچانک موت، کرکٹرز پر فکسنگ الزامات کی گونج اور پولیس تفتیش نے ایونٹ کو ابتدا ہی میں متنازع بنا دیا۔

ورلڈ کپ 2007 میں ہونے والی تبدیلیاں:

اس میگا ایونٹ کے لیے ٹورنامنٹ میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ 10 ٹیسٹ ٹیموں کے ساتھ آئی سی سی کی 6 ایسوسی ایٹ ٹیمیں برمودا، کینیڈا، ہالینڈ، آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ، کینیا کو بھی شامل کیا گیا جنہیں کسی بھی ورلڈ کپ میں پہلی بار چار گروپ میں تقسیم کیا گیا جس کی ترتیب کچھ یوں تھی۔

گروپ اے: دفاعی چیمپئن آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، اسکاٹ لینڈ اور ہالینڈ
گروپ بی: بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور برمودا
گروپ سی: انگلینڈ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور کینیا
گروپ ڈی: میزبان ویسٹ انڈیز، پاکستان، زمبابوے اور آئرلینڈ
گروپ ڈی کو ایونٹ کا ڈیتھ گروپ قرار دیا گیا اور نتائج نے اس کو ثابت بھی کر دیا۔

ہر گروپ کی دو دو ٹاپ ٹیموں نے سپر 8 کے لیے کوالیفائی کرنتا تھا۔ میگا ایونٹ کے منتظم آئی سی سی نے یہ گروپ ایسے تشکیل دیے تھے کہ 6 ایسوسی ایٹ ٹیموں کے ساتھ زمبابوے اور بنگلہ دیش کو نکال کر باقی 8 ٹاپ ٹیموں کے کوالیفائی کرنے کا راستہ نکالا گیا تھا تاہم میگا ایونٹ نے آغاز ہوتے ہی بتا دیا کہ کرکٹ کا کھیل بہت غیر اعتبار ہے جہاں اگلے مرحلے میں کھیلنے کے لیے کسی اور کے انتظامات کیے گئے تھے مگر کھیلا کوئی اور۔

یہ پہلا ورلڈ کپ تھا جس میں پاور پلے کا استعمال کیا گیا۔

اس میگا ایونٹ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت انضمام الحق کررہے تھے جب کہ دیگر کھلاڑیوں میں یونس خان، عبدالرزاق، دانش کنیریا، افتخار انجم ، عمران نذیر، کامران اکمل، محمد آصف،محمد حفیظ ، محمد یوسف، نوید الحسن، شاہد آفریدی، شعیب اختر، شعیب ملک اور عمر گل شامل تھے۔

گزشتہ عالمی کپ 2003 میں پاکستان اگرچہ سپر سکس میں داخل نہیں ہوسکا تھا، مگر وہاں اسے سب ٹیموں کے خلاف زور آزمائی کا موقع ملا تھا، مگر 2007 میں جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا ، وہ کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

ورلڈ کپ میں پاکستان کی شرمناک کارکردگی:

ورلڈ کپ 2007 کا آغاز 13 مارچ کو میزبان ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان کنگسٹن سے ہوا۔ افتتاحی میچ میں پاکستان کو ویسٹ انڈیز سے 54 رنز کی بھاری شکست ہوئی۔ جس نے پاکستان کرکٹ کے تابوت کا دروازہ کھول دیا۔ اب گروپ کے دو میچز آئرلینڈ اور زمبابوے سے تھے جس کو جیت کر گرین شرٹس نے سپر 8 کے اگلے مرحلے تک پہنچنا تھا۔

سابق ریکارڈ اور مدمقابل ٹیموں کو دیکھتے ہوئے سب ہی پاکستان کو اگلے مرحلے میں پہنچا ہوا دیکھ رہے تھے شاید یہی خوش فہمی پاکستان کرکٹ ٹیم کو لے ڈوبی کیونکہ پاکستان اگلا میچ ناقابل یقین طور پر آئرلینڈ سے ہار کر ورلڈ کپ سے شرمناک انداز میں باہر ہوگیا۔

17 مارچ کو ہونے والا پاکستان اور آئرلینڈ کا یہ میچ 1999 میں آسٹریلیا جیسی بڑی ٹیم کے خلاف فائنل کا ری پلے ثابت ہوا کیونکہ پوری ٹیم 8 سال قبل کی تاریخ دہراتے ہوئے 132 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ 133 کا معمولی ہدف آئرش ٹیم نے 7 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔

اس غیر یقینی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوگیا جب کہ دنیائے کرکٹ بھی انگشت بدنداں رہ گئی۔ قومی کرکٹ کو اس وقت دھچکا پہنچا جب ہیڈ کوچ باب وولمر اگلے دن ہوٹل میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ پاکستان کرکٹر کے خلاف ورلڈ کپ کے دوران ہی میچ فکسنگ اور قتل کی تحقیقات ہونے لگیں اور کھلاڑی میدانوں کے بجائے پولیس کے پاس تفتیش کے لیے جانے لگے۔

بھارت نے بھی کروڑوں بھارتیوں کو مایوس کر دیا:

ابھی پاکستان کرکٹ صدمے سے گزر رہی تھی کہ چند گھنٹے بعد بنگلہ دیش نے بھارت کو ہرا کر خطرے کا الارم بجا دیا۔ یوں بھارت کی کہانی بھی کچھ فرق سے پاکستان کی طرح اختتام پذیر ہوئی اور یوں دنیائے کرکٹ کی دو مضبوط اور آئی سی سی کی بہترین منافع بخش ٹیمیں پاکستان اور بھارت ورلڈ کپ کے ابتدائی 10 دنوں میں ناکام اور نامراد گھروں کو واپس لوٹ آئیں۔

انضمام الحق کے سنہری کیریئر کا نمناک اختتام:

گروپ میں پاکستان نے آخری میچ زمبابوے سے جیت کر اپنی کسی قدر گری ہوئی ساکھ کر اٹھانے کی کوشش کی لیکن کھیل تو ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ یہ میچ پاکستان کرکٹ کے لیے یوں بھی بڑا دھچکا ہے کہ قومی کپتان انضمام الحق جو 17 سال تک کرکٹ کے افق پر جگمگاتے رہے اور ان کا کیریئر انتہائی شاندار اور کامیاب رہا لیکن اختتام آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ ہوا۔

اس میچ کے آغاز سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے آنجہانی کوچ کے اچانک انتقال کے سوگ میں گراؤنڈ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

وولمر

1999 کے ہیرو انضمام الحق کو اس وقت ہنستے مسکراتے اسٹیڈیم سے نکلنے والوں نے 15 سال بعد کرکٹ سے پرنم آنکھوں سے رخصت ہوتے دیکھا۔

گروپ اے آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، گروپ بی سے بنگلہ دیش اور سری لنکا، گروپ سی سے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جب کہ گروپ ڈی سے آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز نے اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کی۔

ورلڈ کپ 2007 میں بیٹنگ اور بولنگ کے کچھ ٹیم اور انفرادی ریکارڈ:

میگا ایونٹ کے مجموعی طور پر 51 میچز میں ریکارڈ 21102 رنز بنائے گئے جب کہ بولرز نے 727 بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

جنوبی افریقہ کے ویسٹ انڈیز کے خلاف سپر ایٹ میں 356 رنز سب سے بڑا اسکور رہا۔ ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 16 سنچریاں بنیں۔ عمران نذیر نے زمبابوے کے خلاف 160 رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلی۔

سب سے زیادہ 6 سنچریاں آسٹریلیا کی جانب سے بنائی گئیں، تین سنچریاں سری لنکن بلے بازوں نے بنائیں۔ کینگروز کی جانب سے ہیڈن کی جانب سے تین تھری فیگر اننگ کھیلی گئیں۔ سری لنکا کے جے سوریا کی جانب سے دو سنچریاں بنائی گئیں۔

رکی پونٹنگ، ایڈم گلکرسٹ، عمران نذیر، وریندر سہواگ، چندر پال، ڈی ویلیئرز، کیون پیٹرسن، نیوزی لینڈ کے ونیسٹ اور زمبابوے کے جے پی بیرے سہواگ نے ایک ایک سنچری اسکور کی۔

پہلا سیمی فائنل:

پہلا سیمی فائنل سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کنگسٹن میں کھیلا گیا۔ سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 289 رنز اسکور کیے۔ ہدف کے تعاقب میں کیویز 41.4 اوورز میں 208 رنز پر ہی ہمت ہار گئے۔

سری لنکا نے 81 رنز سے یہ میچ جیت کر دوسری بار میگا ایونٹ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جے وردھنے 115 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر مین آف دی میچ قرار پائے۔

دوسرا سیمی فائنل:

ورلڈ کپ 2007 کا دوسرا سیمی فائنل جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان گروس ایلیٹ کے میدان میں کھیلا گیا جو کینگروز نے با آسانی جیت کر پروٹیز کا ایک بار پھر فائنل کھیلنے کا خواب چکنا چور کر دیا۔

جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کی لیکن بلے باز حریف کو بڑا ہدف دینے میں ناکام رہے۔ پروٹیز کی پوری ٹیم 43.5 اوورز میں 149 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔

آسٹریلیا نے 150 رنز کا معمولی ہدف صرف 31.1 اوورز میں تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرکے مسلسل چوتھی بار فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

فائنل مقابلہ:

نویں ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ فائنل میچ آسٹریلیا اور سری لنکا کے درمیان 28 اپریل کو برج ٹاؤن میں کھیلا گیا جو بد انتظامی کے حوالے سے اب تک کھیلے گئے تمام میگا ایونٹ کا بدترین فائنل کہا جا سکتا ہے۔

آسٹریلیا کا یہ مسلسل چوتھی بار فائنل تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ چاروں بار اس کے مدمقابل ایشیائی ٹیمیں تھیں۔ 1996 میں لاہور میں ہونے والے فائنل میں سری لنکا ورلڈ چیمپئن بنا اس کے بعد انگلینڈ میں 1999 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا نے پاکستان اور 2003 میں جنوبی افریقہ میں بھارت کو فائنل میچوں میں یکطرفہ شکست سے دوچار کر کے تین بار عالمی چیمپئن بننے کا منفرد اعزاز پایا۔

فائنل سے پہلے ہی یہ ورلڈ کپ انتہائی مایوس کُن ثابت ہو چکا تھا۔ تقریباً تمام ہی میچز میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی، پھر بیشتر مقابلے یک طرفہ رہے اور جو کمی رہ گئی تھی وہ پاکستان اور بھارت کے پہلے ہی مرحلے میں اخراج سے پوری ہو گئی۔ پاکستان کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد کوچ باب وولمر کی موت نے بھی سنگین مسائل کھڑے کر دیے تھے۔

لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے یہ ورلڈ کپ فائنل تک پہنچ ہی گیا، جس میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور پھر وہی ہوا جو ورلڈ کپ 2003 کے فائنل میں بھارت کے ساتھ ہوا تھا۔ آسٹریلیا نے ایک طوفانی آغاز لیا اور 23 ویں اوور میں پہلی وکٹ پر ہی 172 رنز جوڑ ڈالے۔

ایڈم گلکرسٹ کی 104 گیندوں پر 149 رنز کی اننگز کسی بھی ورلڈ کپ فائنل میں کھیلی گئی تاریخ کی عظیم ترین اننگز شمار ہونی چاہیے، جس میں 8 چھکے اور 13 چوکے شامل تھے۔ ان کا ہر شاٹ ثابت کر رہا تھا کہ دیگر میچز کی طرح فائنل بھی یک طرفہ ہوگا۔

بارش کی وجہ سے 38 اوورز فی اننگز تک محدود ہونے والے مقابلے میں آسٹریلیا نے 281 رنز بنائے اور سری لنکا کو ایک بہت ہی مشکل ہدف دے دیا۔

تعاقب میں اوپل تھارنگا کی وکٹ ابتدا ہی میں گر گئی لیکن کمار سنگاکارا اور سنتھ جے سوریا نے کافی حد تک معاملات سنبھال لیے۔ 20 ویں اوور میں اسکور ایک وکٹ پر 123 رنز تک پہنچ چکا تھا اور امید کا دامن ابھی چھوٹا نہیں تھا۔ لیکن یہاں سنگاکارا کی اہم وکٹ گر گئی۔ وہ 52 گیندوں پر 54 رنز بنانے کے بعد وہ آؤٹ ہوئے اور کچھ ہی دیر میں جے سوریا کی 63 رنز کی اننگز بھی تمام ہوئی اور ساتھ ہی امیدیں بھی۔

میدان میں مصنوعی روشنیوں کا انتظام نہیں تھا اس لیے ابر آلود موسم میں قدرتی روشنی تیزی سے کم ہونے لگی۔ یہاں تک جب 33 واں اوور مکمل ہوا تو سری لنکا کو تین اوورز میں 63 رنز کی ضرورت تھی۔ یہاں سری لنکا نے کم روشنی کی وجہ سے کھیل روکنے کی پیشکش قبول کی جسے آسٹریلیا نے اپنی فتح سمجھا اور جشن منانا شروع کر دیا۔

آسٹریلوی کرکٹرز یہی سمجھ رہے تھے کہ میچ ختم ہو چکا ہے کیونکہ اُن کے ذہنوں میں یہی بات تھی کہ میچ مکمل ہونے کے لیے بیس اوورز مکمل ہونے ضروری ہوتے ہیں اور ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت آسٹریلوی ٹیم آگے تھی یہی وجہ ہے کہ آسٹریلوی ٹیم نے جیت کا جشن منانا شروع کر دیا تھا لیکن سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب امپائرز علیم ڈار اور سٹیو بکنر نے میچ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کر دیا۔

میچ دوبارہ شروع ہوا اور باقی ماندہ تین اوورز پورے کروائے گئے لیکن اندھیرا چھا رہا تھا اور سٹمپ کیمرے نے جب پچ دکھائی تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

امپائرز کے پاس میچ دوبارہ شروع کرنے کا جواز یہ موجود تھا کہ چونکہ میچ بارش نہیں بلکہ کم روشنی کی وجہ سے روکا گیا تھا لہٰذا آخری تین اوورز کروائے گئے۔

امپائرز نے بنیادی غلطی یہ کی کہ جب بیس اوورز ہو گئے تھے تو میچ رکنے کے بعد فیصلہ ڈک ورتھ لوئس کے تحت ہو جانا چاہیے تھا لیکن میچ امپائرز علیم ڈار اور سٹیو بکنر اس قانون پر عمل کرنے کے بجائے تین اوورز کھلانے میدان میں واپس آئے تھے۔

امپائرز کی قوانین سے لاعلمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے امپائر علیم ڈار نے آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ سے یہ بھی کہا کہ اگر آج کھیل ممکن نہ ہوا تو ریزرو ڈے کے لیے اگلے روز دوبارہ آنا ہو گا۔ رکی پونٹنگ کا کہنا ہے کہ جب علیم ڈار نے یہ بات کہی تو وہ یہ سمجھے کہ وہ ان سے مذاق کر رہے ہیں۔

یہ آسٹریلیا کا مسلسل تیسرا ورلڈ کپ تھا۔ وہ 1999 میں پاکستان، 2003 میں بھارت اور 2007 میں سری لنکا کو شکست دے عالمی چیمپیئن بنا۔ ان میں سے 2003چیمپئن بنا جب کہ اس ورلڈ کپ میں تو وہ ناقابل شکست بھی رہا۔

بہرحال فائنل میں اتنی بد انتظامی کا نتیجہ میچ آفیشلز کے لیے اچھا نہیں نکلا۔ پانچ عہدیداروں پر سخت پابندیاں لگائی گئیں جن میں آن فیلڈ امپائر اسٹیو بکنر اور علیم ڈار بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ ریزرو امپائروں روڈی کوئرٹزن اور بلی باؤڈن اور میچ ریفری جیف کرو سب کو لمبے عرصے تک کسی بھی مقابلے میں اترنے سے روک دیا گیا۔
یوں 46 دن تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ مایوس کُن انداز میں اپنے اختتام کو پہنچا۔

ہرشل گبز کے چھ گیندوں پر تاریخی چھ چھکے، مرلی دھرن کا بھارت کے خلاف جادوئی باؤلنگ اسپیل، لاستھ ملنگا کی چار گیندوں پر چار وکٹیں، مہیلا جے وردنے کی نیوزی لینڈ کے سیمی فائنل میں خلاف کمال سنچری اور آخر میں ایڈم گلکرسٹ کی فائنل میں طوفانی سنچری، یہ سب مل کر بھی اس ورلڈ کپ کو یادگار نہیں بنا سکے۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں