تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

دنیا کا مہلک ترین جانور آپ کے گھر میں موجود

ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا جانور جو نہایت مہلک ہو اور ہم اسے اپنے گھر میں پالنے لگیں؟ لیکن تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اس جانور کو پالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، یہ تو خود ہی بن بلائے گھر میں گھسا چلا آتا ہے اور آپ چاہے کہیں بھی چھپ جائیں یہ آپ کو ڈھونڈ کر اپنا وار کردیتا ہے۔

یہاں دراصل بات ہورہی ہے ننھے سے دکھائی دینے والے مچھر کی جسے عالمی ادارہ صحت نے دنیا کا مہلک ترین جانور قرار دیا ہے۔

مچھر بلاشبہ ایک خطرناک کیڑا ہے اور ہلاکت خیزی میں یہ بڑے بڑے جانوروں کو مات کردیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ افراد مچھر کے کاٹنے (اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں) سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں سانپ کے کاٹے سے ہر سال 50 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ خطرناک ترین شارک بھی سال میں بمشکل 10 افراد کا شکار کر پاتی ہے۔

اور تو اور، دنیا بھر میں ہلاکت خیز ہتھیار بناتے اور مہلک ترین کیمیائی تجربات کرتے انسان بھی سال میں 4 لاکھ 75 ہزار اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ (جنگوں اور قدرتی آفات میں ہونے والی انسانی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔)

لیکن مچھر مذکورہ بالا تمام شکاریوں سے چار ہاتھ آگے ہے۔

مچھر کا عالمی دن

سنہ 1897 میں ایک برطانوی ڈاکٹر سر رونلڈ روز نے اس تاریخ کو دریافت کیا تھا کہ مادہ مچھر انسانوں میں ملیریا پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ سر رونلڈ روز نے ہی تجویز دی کہ اس دن کو مچھروں کا عالمی دن منایا جائے جس کے بعد سے دنیا بھر میں یہ انوکھا دن منایا جانے لگا۔

مچھروں اور ان کی ہلاکت خیزی سے بچنے کے لیے ان سے احتیاط ضروری ہے، جن میں سر فہرست گھر کے اندر اور باہر پانی جمع نہ ہونے دینا اور گھر میں ہوا کی آمد و رفت کو بہتر کرنا ہے۔

گھر کے دروازے کھڑکیوں میں پولیسٹر کی جالیاں لگوانے سے ایک طرف تو مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف ہوا اور روشنی کی آمد بھی برقرار رہتی ہے۔

Comments

- Advertisement -