اشتہار

پاکستان میں 60 فیصد سے زائد خواتین موٹاپے کا شکار

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: پاکستان میں تقریباً 60  فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں جن میں شادی شدہ اور نوعمر لڑکیاں بھی شامل ہیں، 80 فیصد خواتین کا وزن موٹاپے کے ایشیائی معیار کے اعتبار سے زیادہ ہے۔

پاکستانی خواتین میں موٹاپے کی سب سے بڑی وجہ باقاعدگی سے ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مندانہ خوراک کا استعمال ہے۔

ان خیالات کا اظہار گائناکالوجسٹس اور دیگر ماہرین صحت نے موٹاپے کے عالمی دن کے حوالے سے مقامی دوا ساز ادارے فارمیوو کے تعاون سے عباسی شہید اسپتال کے باہر شعبہ طب سے وابستہ خواتین کی واک سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

- Advertisement -

ماہرین صحت نے پاکستانی خواتین پر زور دیا کہ وہ مختلف مہلک بیماریوں سے بچنے کے لیے اپنے طرز زندگی کو تبدیل کریں اور وزن میں کمی لائیں۔

موٹاپے کے عالمی دن کی مناسبت سے کراچی سمیت ملک بھر میں آگہی واکس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کی جانب سے آگہی واکس منعقد کی گئیں۔

ان واکس کا مقصد عوام خصوصاً خواتین میں موٹاپے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہلک بیماریوں سے متعلق آگہی اور شعور بیدار کرنا تھا۔

کیونکہ خواتین مردوں کے مقابلے میں کم متحرک اور فعال ہیں جس کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں خواتین میں موٹاپا زیادہ ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جان لیوا بیماریوں کا شکار بھی زیادہ ہیں۔

عباسی شہید اسپتال کے سامنے منعقدہ واک میں بڑی تعداد میں ہیلتھ کیئر پروفیشنلز خواتین شریک ہوئیں جنہوں نے بینرز اور پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔

اس موقع پر عباسی شہید اسپتال کی پروفیسر شبنم ندیم نے کہا کہ خواتین میں موٹاپا کئی سنگین اور مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھاتا ہے، جن میں ذیابیطس، دل کی بیماری، چھاتی کا کینسر، پی او ایس، حمل کے مسائل سمیت کئی مہلک بیماریاں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موٹاپا انسانی صحت پر برے اثرات مرتب اور عمر کو کم کرتا ہے جبکہ انفرادی، قومی اور عالمی سطح پر صحت کی دیکھ بھال کے نتیجے میں مالی بوجھ بڑھاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو موٹاپے کی وباء نے لپیٹ میں لے رکھا ہے جہاں تقریباً 88 فیصد لوگ جسمانی عدم فعالیت اور غیر صحت بخش خوراک کے استعمال کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہیں۔

انہوں نے خواتین کے علاج کرنے والے تمام معالجین پر زور دیا کہ وہ خواتین کو صحت مند غذا لینے اور روزانہ ورزش کرنے کا مشورہ دیں اور جسمانی طور پر فٹ رہنے کی کوشش کریں۔

ایک حالیہ تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 11 شہروں میں تقریباً 2500 افراد کا معائنہ کیا گیا اور ان میں سے 88 فیصد مرد اور خواتین دونوں موٹے پائے گئے۔

راول میڈیکل جرنل (آر ایم جے) میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں پتا چلا ہے کہ 88 فیصد مرد اور خواتین موٹاپے کا شکار تھے جبکہ تقریباً 7 فیصد کا وزن زیادہ تھا، جس سے صرف 5 فیصد لوگ نارمل باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) والے تھے۔

اس موقع پر ڈاکٹر شائستہ احمد اور ڈاکٹر راحیلہ امتیاز نے بھی خطاب کیا اور پاکستانی خواتین پر زور دیا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی خوراک کے معیار کو بہتر بنائیں، خوراک میں کاربوہائیڈریٹس اور چکنائی کے حصے کو محدود کریں، فٹ رہنے کے کیء کم کھائیں اور زیادہ چہل قدمی کریں۔

انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ فاسٹ فوڈ کا استعمال نہ کریں جو کہ درحقیقت جنک فوڈ ہے، شوگر والے مشروبات کے استعمال سے گریز کریں اور اس کے بجائے گھر میں تیار کردہ صحت بخش کھانے اور مشروبات کا استعمال کریں جن میں چینی اور چکنائی کم ہو۔

انڈس ہسپتال ٹنڈو محمد خان میں ایک اور واک کا انعقاد کیا گیا جس کی قیادت چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ڈاکٹر اقبال میمن نے کی جبکہ کئی دیگر سرکردہ فزیشنز بشمول پروفیسر فردوس ممتاز، پروفیسر فیروز میمن، پروفیسر رفیع احمد غوری اور دیگر نے بھی شرکت کی۔

مقامی ادویہ ساز ادارے فارمیو کے زیراہتمام منعقد ہونے والی اس واک میں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور نرسوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ مریضوں اور ان کے اٹینڈنٹس نے بھی جسمانی سرگرمیوں اور متوازن خوراک کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آگاہی سرگرمی میں شرکت کی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ پاکستان کو موٹاپے کے بڑھتے ہوئے بحران کا سامنا ہے جو پاکستانیوں کی صحت اور تندرستی کو متاثر کر رہا ہے۔

نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2011 سے 2018 تک تولیدی عمر کی خواتین میں موٹاپے اور  وزن میں مجموعی طور پر 28 فیصد سے 38 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں 2011 سے 2018 کے دوران زیادہ وزن والے بچوں کی تعداد دُگنی ہوگئی ہے۔

  ایس ٹی ای پی سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں 41.3 فیصد بالغ افراد موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں موٹاپے کی وبا میں  میٹھےمشروبات کےبڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں شوگر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

معروف ماہر امراض قلب پروفیسر فیروز میمن نے کہا کہ شکر والے مشروبات سے زیادہ چینی کا استعمال وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بنتا ہے، اس کے علاوہ ذیابیطس ٹائپ ٹو، امراض قلب، کینسر، جگر اور گردے کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق چینی کی مقدار کو کل کیلوریز کے 10 فیصد سے کم اور اضافی صحت کے فوائد کے لیے 5 فیصد سے کم تک محدود رکھیں۔

میٹھے مشروبات میں چینی کی زیادہ مقدار کے بارے میں شعور اُجاگر کرنا اور موٹاپے اور اس سے منسلک دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے کے لیے صحت مند بحث کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں